لیکن دسویں کی فجر سے طلوع آفتاب تک اور غروبِ آفتاب سے صبحِ صادق تک مکروہ ہے ۔ اگر کسی عُذر کے سبب ہو مَثَلاََچرواہے نے رات میں ’’رَمی‘‘ کی توکراہت نہیں ٭دس ذُوالحجہ کواگر مُتَمتِّع یا قارِن میں سے کسی نے رَمی کے بعدقربانی سے پہلے حلق یاقصر کروا لیاتو دم واجب ہو گیا ۔ مُفرِد’’رَمی‘‘ کے بعد حلق یاقصرکروا سکتا ہے کہ اس پر قربانی واجب نہیں بلکہ مستحب ہے ۔ ٭حجِّتَمَتُّعاور حجِّ قِران کی قربانی اور حَلق یا قصر کا حُدُودِ حرم میں ہونا واجب ہے ۔ لہٰذا اگر یہ دونوں حُدُودِ حرم سے باہَر کریں گے توتمتُّع والے پر ’’دودَم ‘‘اورقِران والے پر’’چاردَم‘‘ واجب ہوں گے کیونکہ قِران والے پر ہرجُرم کا ڈبل کفّارہ ہی٭ گیارہویں اور بارہویں کی ’’رَمی‘‘ کا وقت زوالِ آفتاب(یعنی نمازِظُہرکاوقت آتے ہی)شروع ہوجاتا ہے ۔ بے شمار لوگ صبح ہی سے ’’رَمی‘‘ شروع کر دیتے ہیں یہ غَلَط ہے اور اِس طرح کرنے سے رَمی ہوتی ہی نہیں ۔ گیارہویں یا بارہویں کو زوال سے پہلے اگر کسی نے ’’رمی‘‘کر لی اور اسی دن اگر اعادہ نہ کیاتودم واجِب ہو گیا٭گیارہویں اور بارہویں کی ’’رمی‘‘ کا وقت زوالِ آفتاب سے صبحِ صادِق تک ہے ۔ مگربِلا عذر غروبِ آفتاب کے بعد رمی کرنا مکروہ ہی٭ عورت ہو یا مرد ، ’’رَمی‘‘ کے لئے اُس وقت تک کسی کو وکیل نہیں کر سکتے جب تک اس قدرمریض نہ ہو جائیں کہ سُواری پر بھی جمرے تک نہ پہنچ سکیں اگر اس قدر بیمار نہیں ہیں پھر بھی کسی مرد یا عورت نے دوسرے کو وکیل کر دیااور خود ’’رَمی‘‘ نہیں کی تو دَم واجب ہو جائے گا٭اگر مِنٰی شریف کی حُدُودہی میں تیرہویں کی صبحِ صادِق ہو گئی اب ’’تیرھویں کی رمی‘‘ واجب ہو گئی ۔ اگر’’ رَمی‘‘ کیے بغیر چلے گئے تو دَم واجب ہو گیا٭اگر کوئی طوافِ زیارت کیے بغیر وطن چلا گیا توکَفّارے سے گزارہ نہیں ہو گا کیونکہ اس کے حج کا رکن ہی ادا نہ ہوا ۔ اب لازمی ہے کہ دوبارہ مکّۂ مکرّمہ زادہا اللّٰہ شرفاً وتعظیما آئے اور طوافِ زیارت کرے ۔ جب تک طوافِ زیارت نہیں کرے گا بیوی حلال نہیں ہو گی، چاہے برسوں گزر جائیں ٭وقتِ رخصت آفاقی حجّن کو حیض آگیا، اب اِس پر طوافِ رخصت واجب نہ رہا ، جا سکتی ہے ۔ دَم کی بھی حاجت نہیں ٭بے وضو سعی کر سکتے ہیں مگر باوضو مستحب ہی٭جتنی باربھی عمرہ کریں ہرباراحرام سے باہرہونے کے لیے حلق یا قصر واجِب ہے ۔ اگر سرمُنڈا ہوا ہو تب بھی اُس پراُسترا پھراناواجِب ہے ۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد
مدینے کا سفر ہے اور میں نَمدیدہ نَمدیدہ
جَبِیں اَفسُردہ اَفسُردہ قدم لَغْزِیْدہ لَغْزِیْدہ
سراپا ادب و ہوش بنے ، آنسو بہاتے یا رونا نہ آئے تو کم از کم رونے جیسی صورت بنائے بابُ الْبَقیع پر حاضر ہوں اور’’ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘‘عرض کر کےذرا ٹھہر جائیے ۔ گویا سرکارِ ذی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شاہی دربار میں حاضِری کی اجازت مانگ رہے ہیں ۔ اب ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘پڑھ کر اپنا سیدھاقدم مسجد شریف میں رکھئے اور ہَمہ تَن ادب ہو کر داخلِ مسجد ِنبوی علٰی صاحِبِہا الصلوٰۃ والسَّلامہوں ۔ اِس وقت جوتعظیم وادب فرض ہے وہ ہر مؤمن کادل جانتا ہے ۔ ہاتھ، پاؤں ، آنکھ، کان، زبان، دل سب خیالِ غیر سے پاک کیجئے اور روتے ہوئے آگے بڑھئے ۔ نہ اِردگِردنظریں گھمائیے ، نہ ہی مسجد کے نقش ونِگار دیکھئے ، بس ایک ہی تڑپ ایک ہی لگن ایک ہی خیال ہو کہ بھاگا ہوا مُجرِم اپنے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں پیش ہونے کے لیے چلا ہے ۔
چلا ہوں ایک مُجرِم کی طرح میں جانبِ آقا
نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ
اگر مکروہ وقت نہ ہو اور غَلَبۂ شوق مُہْلَت دے تو دودورکعت تَحِیَّۃُ المسجد وشکرانۂ بارگاہِ اقدس ادا کیجئے ۔
اب ادب وشوق میں ڈوبے ہوئے گردن جھکائے آنکھیں نیچی کیے ، آنسو بہاتے ، لرزتے ، کانپتے ، گناہوں کی ندامت سے پسینہ پسینہ ہوتے ، سرکارِنامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فضل و کرم کی اُمّیدرکھتے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قَدَمَینِ شَرِیْفَیْن کی طرف سے سُنہری جالیوں کے رُو بُرومُواجَہَہ شریف میں حاضِر ہوں ۔
اصل مُواجَھَہ شریف کس طرف ہے ؟
اب سراپا ادب بنے زیرِقِندیل اُن چاندی کی کیلوں کے سامنے جو سُنَہری جالیوں کے دروازۂ مبارَکہ میں اوپر کی طرف جانِبِ مشرِق لگی ہوئی ہیں قبلے کو پیٹھ کیے کم ازکم چار ہاتھ (یعنی تقریباً دو گز)دُور نماز کی طرح ہاتھ باندھ کرمحبوب ِربِّ اکبر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرۂ انور کی طرف رُخ کر کے کھڑے ہوں کہ ’’فتاوی عالمگیری‘‘وغیرہ میں یہی ادب لکھا ہے کہ یَقِفُ کَمَا یَقِفُ فِی الصَّلٰوۃِ یعنی’’ سرکارِمدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں اس طرح کھڑا ہو جس طرح نماز میں کھڑا ہوتا ہے ۔ ‘‘