رہنے دو، ربِّ کائنات عَزَّوَجَلَّ نے اِس سے عہد کیا ہے کہ فِرِشتے تیری تجہیز وتکفین کریں گے۔ یہ سن کرآپ رَحمۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ باغ کے ایک گوشہ میں مصروف ِعبادت ہو گئے اور چند رکعات پڑھنے کے بعد دیکھا تووہاں اس نوجوان کا نام ونشان بھی نہ تھا۔(روض الریاحین، ص۴۹، بتصرفٍ)
رہوں مست و بے خود میں تیری وِلا میں
پِلا جام ایسا پِلا یااِلٰہی!
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
جَوانی میں عِبادت کرنے اور خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ رکھنے والوں کو مبارَک ہو کہ بروزِ قِیامت جب سورج ایک میل پر رہ کر آگ برسا رہا ہو گا، سایۂ عرْش کے عِلاوہ اُس جاں گُزا (یعنی جان کو اذیّت دینے والی) گرمی سے بچنے کا کوئی ذریعہ نہ ہوگا تواللہ عَزَّوَجَلَّ ایسے خوش قسمت نوجَوان کو اپنے عرْش کا سایۂ رحمت عطافرمائے گاجیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا اِمام عبدالرَّحمن جلال ُ الدِّین سُیُوطی شافِعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی نقْل فرماتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا سَلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرتِ سیِّدُنا ابودَرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی طرف خط لکھا کہ ’’اِن صِفات کے حامِل مسلمان عرْش کے سائے میں ہوں گے : (اُن میں سے دو یہ ہیں ) (۱)…وہ شخص جس کی نشوونَمااِس حال میں ہوئی کہ اُس کی صحبت، جوانی اور قوّت اللہ عَزَّوَجَلَّکی پسند اور رِضاوالے کاموں میں صرْف ہوئی اور(۲)…وہ شخص جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کاذِکْر کیا اوراُس کے خوف سے اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔‘‘(مُصَنَّف اِبْنِ اَبِی شَیْبۃ، کتاب الزہد، کلام سلمان، ۸/ ۱۷۹، حدیث : ۱۲، ملتقطاً)
یا ربّ! میں ترے خوف سے روتا رہوں اکثر
تُو اپنی محبت میں مجھے مست بنا دے
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ہمارے اَسلافِ کِرام رَحِمَھُمُ اللہُ السَّلامجوانی کی بَہُت قدْر کرتے اور اِس کی قدْر کرنے کی تلقین بھی فرماتے چُنانچِہ
حُجَّۃُ الاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام ابوحامِد محمد بن محمد غَزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی جوانوں اور توبہ میں ٹال مَٹول کرنے والوں کو سمجھاتے ہوئے اِرشاد فرماتے ہیں : ’’کیا تم غور نہیں کرتے کہ تم کب سے اپنے نفْس سے وعدہ کررہے ہو کہ کل عمَل کروں گا، کل کروں گا اور وہ ’’کل‘‘ ’’آج‘‘ میں بدل گیا ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ جو’’ کل‘‘ آیا اور چلا گیا وہ گذشتہ ’’کل‘‘ میں تبدیل ہو گیا بلکہ اصْل بات یہ ہے کہ تم ’’آج‘‘ عمَل کرنے سے عاجِز ہو تو’’کل‘‘ زِیادہ عاجِز ہوگے (آج کا کام کل پر چھوڑنے اور توبہ واِطاعت میں تاخیر کرنے والا) اُس آدمی کی طرح ہے کہ جو درخت کو اُکھاڑنے سے جوانی میں عاجِز ہو اور اُسے دوسرے سال تک مؤخَّر کر دے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا چلا جائے گا درخت زیادہ مضبوط اور پختہ ہوتاجائے گا اور اُکھاڑنے والا کمزورتر ہوتاجائے گا پس جو اُسے جوانی میں نہ اُکھاڑ سکا وہ بُڑھاپے میں قطعاً نہ اُکھاڑ سکے گا ۔‘‘(اِحْیَاءالعُلُوم، ۴/ ۷۲)
اُترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہو سکے کر لے
اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دو دن کی اُجالی ہے (حدائقِ بخشِش)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد