جوانی کیسے گزاریں؟

باکرامت نوجوان

        حضرت سیِّدُنامالک بن دِینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الغَفَّار فرماتے ہیں کہ ایک سفَر کے دوران مجھے سخت پیاس لگی تو میں پانی کی تلاش میں ایک وادی کی جانب چل پڑا۔ اچانک میں نے ایک خوفناک آواز سنی، توسوچا : شاید! کوئی درندہ ہے جو میری طرف آ رہا ہے۔ چُنانچِہ میں بھاگنے ہی والا تھاکہ پہاڑوں سے کسی نے مجھے پکار کر کہا :  ’’اے انسان! ایسا کوئی معاملہ نہیں جس طرح تم سمجھ رہے ہو، یہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّکا ایک ولی ہے جس نے شدَّتِ حسرت سے ایک لمبی سانس لی تو اُس کی آواز بلند ہو گئی۔‘‘ جب میں اپنے راستے کی جانب واپس پلٹا تو ایک نوجوان کو عبادت میں مشغول پایا۔ میں نے اُسے سلام کیا اور اپنی پیاس کا بتایا تو اُس نے کہا :  ’’اے مالک(رَحمۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) !اتنی بڑی سلطنت میں تجھے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ملا۔‘‘پھر وہ چٹان کی طرف گیا اوراُسے ٹھوکر مارکر کہنے لگا : ’’اُس ذات کی قدرت سے  ہمیں پانی سے سیراب کر جو بوسیدہ ہڈیوں کو بھی زندہ فرمانے پر قادر ہے۔‘‘ اچانک چٹان سے پانی ایسے بہنے لگاجیسے چشمے سے بہتاہے۔میں نے جی بھر کر پینے کے بعد عرْض کی : ’’مجھے ایسی چیز کی نصیحت فرمایئے جس سے مجھے نفع ہوتا رہے۔‘‘ تو اُس نے کہا :  ’’تنہائی میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں مشغول ہو جائیے،  وہ(رب عَزَّوَجَلَّ) آپ کو جنگلات میں پانی سے سیراب کر دے گا۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ اپنے راستے پر چلا گیا۔(الروض الفائق، ص۱۶۶، بتصرفٍ)

میری زِندگی بس تیری بندگی میں                   ہی اے کاش! گزرے سدا یا اِلٰہی

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

صالِح وخائف نوجوان

          حضرتسیِّدُنا ذُوالنُّون مِصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیْ ایک بار مُلکِ شام تشریف لے گئے، آپ   رَحمۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کا گزر ایک نہایت سرسبز وشاداب خوش نُما باغ سے ہوا، تو دیکھا کہ ایک نوجوان سیب کے درخت کے نیچے نماز میں مشغول ہے۔آپ   رَحمۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکو اُس صالِح جوان سے ہم کلامی کا اِشتِیاق ہوا۔ جب اُس نے سلام پھیرا تو آپ نے اسے اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی تو اس نے جواب دینے کے بجائے زمین پر یہ شعر لکھ دیا :

مُنِعَ اللِّسَانُ مِنَ الْکَلَامِ لِاَنَّہٗ                         کَھْفُ الْبَلاءِ وَجَالِبُ الْاٰفَاتِ

فَاِذَا نَطَقْتَ فَکُنْ لِّرَبِّکَ ذَاکِرًا                         لَا تَنْسَہٗ وَاَحْمِدْہٗ فِیْ الْحَالَاتِ

          یعنی زبان کلام سے روک دی گئی ہے کیونکہ یہ (زبان)طرح طرح کی بلاؤں کا غار اور آفات لانے والی ہے اِس لئے جب بولو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکر کرو، اُسے کسی وقت فراموش نہ کرواورہر حال میں اُس کی حمد بجا لاتے رہو۔نوجوان کی اِس تحریر کا آپ   رَحمۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے قلْبِ انور پر گہرا اَثَر ہوا اور آپ   رَحمۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  پر گریہ طاری ہوگیا۔ جب اِفاقہ ہوا توآپ  رَحمۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے بھی جواباً زمین پراُنگلی سے یہ اَشعار لکھ دئیے :

وَمَا مِنْ کَاتِبٍ اِلَّا سَیَبْلٰی                    وَیُبْقِی الدَّھْرُ مَا کَتَبَتْ یَدَاہٗ

فَلا تَکْتُبْ بِکَفِّکَ غَیْرَ شَیْئٍ                یَسُرُّکَ فِیْ الْقِیَامَۃِ اَنْ تَرَاہٗ

          یعنی ہر لکھنے والا ایک دن قبر میں جاملے گا مگراُس کی تحریر ہمیشہ باقی رہے گی اِس لئے اپنے ہاتھ سے ایسی بات لکھو جسے دیکھ کر بروزِ قیامت تمہیں خوشی ملے۔حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّون مصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کابیان ہے کہ میرا نوِشتہ (تحریر) پڑھ کر اُس جوانِ صالِح نے ایک چیخ ماری اوراپنی جان جانِ آفریں کے سِپُرد کر دی۔ میں نے سوچا کہ اِس کی تجہیزوتکفین کا اِنْتِظام کردوں مگر ہاتِفِ غیبی نے آواز دی : ذُوالنُّون! اِسے

Index