ترے صَوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی لہو مجھ کو رُلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
اَمارت کیا، شَکَوْہِ خُسْرَوی بھی ہو تو کیا حاصل نہ زورِ حیدری تجھ میں ، نہ اِستِغنائے سَلمانی
نہ ڈھونڈ اِس چیز کو تہذیبِ حاضر کی تجلِّی میں کہ پایا مَیں نے اِستِغنا میں معراجِ مسلمانی
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! جوانی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بَہُت بڑی نعمت ہے جسے یہ نعمت ملے اُسے اِس کی قدْر کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ وَقْت عبادت واِطاعت میں گزارنا چاہئے، وقْت کے اَنمول ہیروں کو نفع رسانیوں کاذریعہ بنانا چاہئے۔ حکیم ُ الا ُمّت حضرت مفتی احمدیار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّان نقل فرماتے ہیں : ’’ جوانی کی عبادت بڑھاپے کی عبادت سے افضل ہے کہ عبادات کا اصل وقت جوانی ہے۔شعر
کر جوانی میں عبادت کاہلی اچھی نہیں جب بڑھاپا آگیا کچھ بات بن پڑتی نہیں
ہے بڑھاپا بھی غنیمت جب جوانی ہوچکی یہ بڑھاپا بھی نہ ہوگا موت جس دم آگئی
وقت کی قدر کرو، اسے غنیمت جانو۔ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔‘‘(مراٰۃ المناجیح، ۳/ ۱۶۷)اور خصوصاً ایّامِ جوانی کے اَوقات کی قدْر دانی بَہُت ضروری ہے کیونکہ جوانی میں انسان کے اَعضاء مضبوط اور طاقتورہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے اَحکام وعبادات کی بجاآوری، تَنْدَہی اور بڑی خوش اُسلوبی کے ساتھ ممکن ہوتی ہے، بُڑھاپے میں پھر یہ بہاریں کہاں نصیب! اُس وقْت تو مسجد تک جانا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔ بھوک پیاس کی شدّت کوبرداشْت کرنے کی ہِمّت بھی نہیں رہتی، نفْل تو کُجا فرْض روزے پورے کرنا بھی بھاری پڑجاتے ہیں اور ویسے بھی جَوانی کی عبادت اِمتِیازی حیثیت رکھتی ہے جیسا کہ
حضرتِ سیِّدُنا اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے، نبیِّ کریم، رء ُوفٌ رَّحیمعَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلَاۃِ وَالتَّسْلِیْم کا اِرشادِ عظیم ہے : ’’صبح کے وقت عبادت کرنے والے نوجوان کو بڑھاپے میں عبادت کرنے والے بوڑھے پر ایسی ہی فضیلت حاصل ہے کہ جیسی مُرسَلِین (عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) کو تمام لوگوں پر۔‘‘(جمع الجوامع، ۵/ ۲۳۵، حدیث : ۱۴۷۶۹)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس رِوایت سے معلوم ہوا کہ عبادت گزار جوان یقیناً خوش بخت ہے، اُس کے لئے بَہُت ساری فضیلتوں اور سعادتوں کی نوید (یعنی خوشخبری) ہے، لیکن اِس طرح کی رِوایات سے کوئی یہ مطلَب اَخْذ نہ کرے کہ بوڑھے توکسی کھاتے میں ہی نہیں۔ میرے پیارے اسلامی بھائیو! ایسا نہیں ، یاد رکھئے! یہ اِسلامی مُعاشرے کی اِنفرادِیَّت وخصوصِیَّت ہے کہ وہ بوڑھوں اور ضعیفوں کو بھی بلندیوں سے ہم کَنار کرتا ہے، اِسلام میں بوڑھوں کو بوجھ سمجھ کر گھر سے نکال دینے اور انہیں کسی اِدارے میں ’’جمع‘‘ کروا دینے کا کوئی تصوُّر نہیں ، اِسلام کا طرَّۂ اِمتِیاز ہے کہ اِس دینِ مُبین میں بلا تفریقِ رنگ ونسل و بلا اِمتِیازِ عُمْر وقد ہر مسلمان اپنا خاص مَقام رکھتا ہے، جس کا لِحاظ رکھنا دوسرے مسلمان پر لازِم ہے، اِس کی مختصَر وضاحت دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ 32صفْحات پر مشتَمِل ’’اِحترامِ مُسلم ‘‘ نامی رِسالہ میں بھی کی گئی ہے۔ الغرَض! ہر مسلمان خواہ وہ بوڑھا ہو یا جَوان، نظرِ اِسلام میں اُس کی خاص اَہَمِّیَّت وشان ہے۔چنانچہ