ترجمۂ کنزُ الایمان : اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔
مجھے تم ایسی دو ہمّت آقا دوں سب کو نیکی کی دعوت آقا
بنا دو مجھ کو بھی نیک خصلت نبیِّ رحمت، شفیعِ اُمّت
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اِس حکایت سے یہ بھی پتا چلا کہ وقْت کی نا قدْری بالآخِر نَدامت لاتی ہے، خصوصاً ایّامِ جَوانی میں بے فکْری، لاپرواہی اوراِن حسین لمحات کی بے قدْری بڑھاپے میں پچھتاوے کا سبب بنتی ہے۔ کیونکہ جن کی جَوانی کا سفَرگناہوں کی تاریکیوں میں گزرتا ہے جب وہ بڑھاپے کے عالَم میں نیکیوں کی روشنیوں کی طرف رُخ موڑتے ہیں تو بَہُت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور اُس وقْت آدَمی کچھ کرنا بھی چاہے تو جسْم واَعضاء کی کمزوری اور صِحّت کی خرابی حوصلے پَست کردیتی ہے، لہٰذا جب تک جَوانی کی نعمت ہے اورصحّت سَلامت ہے، تو اِس کو غنیمت جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عبادت اور اچھے کاموں کی عادت پر اِستِقامت پانے کی کوشِش کیجئے اوراگر آج نیکیوں سے جی چُرا کر، بدیوں میں دل لگا کر ہمّت وصَلاحِیّت اوروقْت کی نعمت گنوا بیٹھے توکل پچھتاوا ہو گالیکن اُس وقْت کاپچھتانا اور افسوس سے ہاتھ ملنا کسی کام نہ آئے گا۔ وقْت کی تیزرفتار دھار ہمارے لیل ونَہار (یعنی دن رات) کو کاٹتی چلی جا رہی ہے، وقْت کی لگام کب کسی کے ہاتھ آئی ہے اور وقْت کی گاڑی سے کون کہے کہ ذرا آہِستہ چل! پس آج وقْت کی قدْر کیجئے اور اِس سے فائدہ اُٹھائیے ورنہ پھر گیا وقْت یاد تو آئے گا مگر ہاتھ نہ آئے گا۔
سدا عیش دَوراں دِکھاتا نہیں
گیا وقْت پھر ہاتھ آتا نہیں
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1548 صفْحات پر مشتمل کتاب ’’فیضانِ سنّت‘‘جلد اوّلصَفْحَہ713 پر ہے : ’’لُغات کی کُتُب کے مطابِق (بالِغ ہونے سے لے کر )30یا40 برس تک آدمی جوان رہتا ہے، 30یا 50 برس جوانی اور بڑھاپے کا درمیانی وقْفہ یعنی اُدھیڑ اور اِس کے بعد بُڑھاپا آ جاتا ہے۔‘‘
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دماغی اور جسمانی صلاحیتوں سے صحیح معنوں میں جوانی ہی میں کام لیا جاسکتا ہے، عِلْمِ دین حاصِل کرنے اور مُطالَعہ کرنے کی عُمْر بھی جوانی ہی ہے ، بڑھاپے میں تو بارہا عقْل وفہْم کی قوتیں بیکار ہو کر رہ جاتی ہیں ، غور وفکْر کی صلاحیتیں ماند (ہلکی، کمزور) پڑ جاتی ہیں ، یادداشت کا خزانہ خالی ہوجاتا ہے، دِماغ خلَل کا شکار ہونے کے سبب انسان بچوں کی سی حرکتیں کرنے لگ جاتا ہے اور اُس سے بعض اَوقات ایسیمُضْحَکَہ خیز حَرَکات کا صُدور ہوتا ہے کہ بے اِختِیار ہنسی آجائے۔ لیکن خوشخبری ہے اُس نوجوان کے لئے جوتِلاوتِ قراٰن کا عادی ہے کہ اگر ایسے نوجوان کو بُڑھاپا آیاتو وہ اِن آزمائشوں اور آفتوں سے محفوظ رہے گا۔ جیسا کہ مُفسِّرِ شہیر، حکیم ُ الا ُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِی نقل فرماتے ہیں : ’’حضرتِ سیِّدُنا عِکْرِمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہ فرماتے ہیں : جو مسلمان تِلاوتِ قراٰن کا عادی ہو، اُس پر اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ یہ(یعنی جوانی میں حاصِل کئے گئے عِلْم کو بڑھاپے میں بھولنے کی ) حالت طاری نہ ہو گی۔‘‘ (نور العرفان، پ۱۷، الحج، تحت الآیۃ : ۵)