دعوت وغیرہ کی رغبت دلاؤں گا ٭قہقہہ لگانے اور لگوانے سے بچوں گا٭ نظر کی حفاظت بنانے کی خاطر حتَّی الامکان نگاہیں نیچی رکھوں گا۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{مَدَنی چینل کے ناظِرین بھی ان میں سے حسبِ حال نیّتیں کر سکتے ہیں }
٭ نگاہیں نیچی کیے خوب کان لگاکر بیان سنوں گا ٭ٹیک لگا کر بیٹھنے کے بجائے علمِ دین کی تعظیم کی خاطر جہاں تک ہوسکادو زانو بیٹھوں گا٭ضَرورتاً سمٹ سَرَک کر دوسرے کے لیے جگہ کشادہ کروں گا٭ دھکّا وغیرہ لگا تو صبر کروں گا ، گھورنے ، جھڑکنے اورالجھنے سے بچوں گا٭ صلُّوا عَلَی الْحبیب ، اُذْکُرُاللہ ، تُوبُوٓا اِلَی اللہ وغیرہ سن کر ثواب کمانے اور صدا لگانے والوں کی دل جُوئی کیلئے بُلند آواز سے جواب دوں گا٭بیان کے بعد خود آگے بڑھ کر سلام و مصافَحہ اور انفِرادی کوشش کروں گا ۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
٭ بہ نیّت ادائے سنّت سلام کروں گا٭ سنّت کے مطابِق دونوں ہتھیلیوں سے بِلا حائل مصافَحہ کروں گا٭کسی نے بُلایا ، پکارا یا توجُّہ چاہی تو لَبَّیک کہوں گا ([1]) ٭ رِضائے الٰہی عَزَّ وَجَلَّ پانے ، اتِّباعِ سنّت اور صدقے کا ثواب کمانے اورمسلمان کے دل میں خوشی داخِل کرنے کی نیّت سے مسکراؤں گا ٭ اس کی ملاقات پر دل خوش ہوا تو اس کا اظہار کرکے اس کا بھی دل خوش کروں گا(اپنے دل میں ناگواری پیدا ہونے کی صورت میں اُسے اِس بات کااحساس نہیں ہونے دوں گا اور جھوٹ بھی نہیں بولوں گا کہ آپ سے مل کر خوشی ہوئی) ٭اس کی جھوٹی تعریف نہیں کروں گا ٭غیبت وچغلی وغیرہ نیزفُضول گوئی سے بچوں گا ٭بِلاضرورت سُوالات نہیں کروں گا ([2]) ٭دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کاموں کے لئے اس پر انفرادی کوشش کروں گا ٭وقتِ رخصت (اچّھا !خدا حافظ !وغیرہ کہنے کے بجائے )سلام کروں گا ۔ (سلام کے بعد خدا حافِظ کہنے میں حرج نہیں )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{54}مَدَنی اِنعامات کا رسالہ پُر کرنے کی نیّتیں
٭ رِضائے الٰہی کیلئے نیکیوں میں اضافے ، ان پر استِقامت پانے اورگناہوں سے بچنے کی کوشش کے ضِمْن میں روزانہ فکرِ مدینہ کے ذَرِیعے ’’مَدَنی اِنعامات‘‘ کا رسالہ پُر کر کے ہر مَدَنی ماہ کی پہلی تاریخ کو جَمْع کروا ؤں گا ٭اگر نُمایاں تعداد میں مَدَنی اِنعامات پر عمل ہوا تو رِیا کے حملوں سے بچنے کیلئے بِلاضَرورت کسی پر عَدَد ظاہِر نہیں کروں گا ٭ جن کا عمل کم ہوا اُن کو حقیر جاننے سے بچوں گا۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{55}قفلِ مدینہ لگانے کی نیّتیں
٭بدکلامی اور بد نگاہی کے ساتھ ساتھ فُضُول کلامی اور فُضُول نگاہی سے بچنے کی عادت بنانے کیلئے رِضائے الٰہی کی خاطر زبان اور آنکھوں کا قفلِ مدینہ لگاؤں گا٭ کچھ نہ کچھ اشارے سے یالکھ کر بھی گفتگو کروں گا ہر مَدَنی ماہ کی پہلی پیر شریف کو یومِ قفلِ مدینہ مناؤں گا اور اس میں مکتبۃ المدینہ کا رسالہ’’ خاموش شہزادہ‘‘ پڑھوں یا سنوں گا (تا کہ خاموشی کا مضبوط ذِہن بنے) ٭پیدل چلنے میں بِلا ضَرورت اِدھر اُدھر دیکھنے کے بجائے نیچی نظر ، کسی سے گفتگو
[1] میرے آقا اعلیٰ حضرت ، امام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن کے والدِ ماجِد رئیسُ الْمُتَکَلِّمِیْن حضرت مولانانَقی علی خان علیہ رحمۃُ الحَنان لکھتے ہیں : جو آپ (صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کو پکارتا جواب میں ’’لَبَّیک‘‘ فرماتے یعنی حاضرہوں۔ (سُرُو رُ الْقُلُوب بِذِکرِ الْمَحبوب ص۱۸۲)
[2] مَثَلاً : کہاں سے آ رہے ہو؟ کہاں جا رہے ہو؟وہاں کیا کام ہے ؟کہاں ملازمت ہے؟ والد صاحب کیا کام کرتے ہیں؟بچّے کتنے ہیں؟کتنے بھائی بہن ہیں؟کہاں تک تعلیم ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔