٭100فیصد لوٹادینے کی نیّت ہو گی تو ہی وہ بھی بقدرِ ضَرورت قرض لوں گا ([1])٭ طے شدہ وقت کے مطابق اُس کا قرض لوٹا دوں گا ، خوامخواہ چکّر نہیں لگواؤں گا٭ اُس کے مطالَبے کے بِغیر کچھ نہ کچھ زائد ادا کرکے ثواب کماؤں گا٭ قرض ادا کر کے شکر یہ ادا کروں گا اور اہل و مال میں برکت کی دعا دوں گا۔([2])
حاجتمند کو قرض دیتے وقت یہ نیتیں کر سکتے ہیں : ٭مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے کا ثواب کماؤں گا٭رِضائے الٰہی کیلئے اس کا دل خوش کروں گا٭مدّت پوری ہونے پر اسے تنگ دست پایا تو مُہْلت دے کر ثواب کماؤں گا۔ ([3])
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{34}فون کرنے یا وُصول کرنے کی نیّتیں
٭ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط پڑھ کر فون کروں گا اور وُصُول کروں گا ٭ مسلمان کو ’’اَلسّلامُ عَلَیکُمْ وَرَحمَۃُ اللہِ وَبَرَکٰتُہٗ‘‘کہہ کر سلام میں پہل کروں گا ٭اگر مجبوری نہ ہوئی توفوراً فون وُصول کرکے مسلمان کی تشویش دُور کروں گا (کیونکہ فون وُصول نہ ہونے کی صورت میں اکثر بے قراری ہوتی ہے) ٭ کم از کم ایک بار صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!کہوں گا ٭دوسروں کی موجودگی میں مخاطَب کی اجازت کے بغِیر فون کا اسپیکر آن نہیں کروں گا٭بغیر اجازت کسی کا فون ریکارڈ نہیں کروں گا٭گناہوں بھری گفتگو (مثلاً غیبت ، چغلی وغیرہ) سے بچوں اور بچاؤں گا ٭اِختتام پر بھی سلام کروں گا۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{35}اپنے پاس فون رکھنے کی نیَّتیں
٭میوزیکل ٹونز سے خود بھی بچوں گا اوردوسروں کو بھی بچاؤں گا٭ ثواب کے کاموں میں استعمال کروں گا( مَثَلاًعُلماء سے مسائل دریافت کرنا ، صلۂ رِحمی ، مبارکباد ، عیادت ، تعزیت ، نیکی کی دعوت ، رزقِ حلال کی جستجووغیرہ) ٭ بِلا سخت ضرورت سوئے ہوئے کو فون کرکے اُس کی نیند خراب نہیں کروں گا ٭ مسجِد ،اِجتماع ، مدنی مذاکرے ، مَدَنی مشورے اور مزار شریف پر حاضری وغیرہ مواقِع پر فون بند رکھوں گا ٭کسی کا فون آنے پر خوشی ہوئی تو مسلمان کو راضی کرنے کا ثواب کمانے کی نیَّت سے خوشی کا اِظہار کروں گا۔ ( ناگواری کا اِظہار دل آزار ثابت ہوسکتا ہے)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{36}بجلی استعمال کرنے کی نیّتیں
٭کمپیوٹر ، فریج ، واشِنگ مشین ، گیزر A.C. ، پنکھا ، بتّی وغیرہ چلا تے وَقْت بہ نیّتِ ثواب بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط پڑھوں گا٭جہاں ایک بلب سے کام چل سکتا ہو گابِلا ضَرورت زائد بلب روشن نہیں کروں گا ٭ ضَرورت پوری ہو چکنے پر اِسراف سے بچنے کی نیّت سے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِط پڑھ کر فوراً بند (OFF) کر دوں گا ۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
[1] حاجت کے موقع پر قرض لینے میں حرج نہیں ، جبکہ ادا کرنے کا ارادہ ہو اور اگر یہ ارادہ ہو کہ ادا نہ کرے گا (تب) تو حرام کھاتا ہے اور اگر بغیر ادا کیے مرگیا مگر نیّت یہ تھی کہ ادا کردے گا ، تو اُمّید ہے کہ آخِرت میں اِس سے مُواخَذہ(یعنی پوچھ گچھ) نہ ہو۔ (بہارِ شریعت ج۳ ص۶۵۶)
[2] نَسائی نے سیِّدُنا عبدُاﷲ بن ابی رَبیعہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہتے ہیں : مجھ سے حُضُورِ اقدس صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قرض لیا تھا۔ جب حُضُور (صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے پاس مال آیا ، ادا فرما دیا اور دُعا دی کہ اﷲتعالیٰ تیرے اَہل و مال میں بَرَکت کرے اور فرمایا : ’’قرض کا بدلہ شکریہ ہے اور ادا کر دینا۔ ‘‘
(نسائی ص۷۵۳حدیث۴۶۹۲ ، بہارِ شریعت ج۲ ص۷۵۴)
[3] ایک شخص (زمانۂ گزشتہ میں) لوگوں کو اُدھار دیا کرتا تھا ، وہ اپنے غلام سے کہا کرتا : ’’ جب کسی تنگدست مَدیُون(یعنی مقروض) کے پاس جانا اُس کو معاف کردینا اس اُمّید پر کہ خدا ہم کو معاف کردے ، جب اُس کا انتقال ہوا اﷲ تعالیٰ نے مُعاف فرما دیا ۔ ‘‘ (بخاری ج۲ص۴۷۰حدیث۳۴۸۰ ، بہارِ شریعت ج۲ ص۷۶۲ )