{1} حضرت سیِّدُنا یعقوب مَکْفُوْف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں: مخلص وہ ہے جو اپنی نیکیاں اِس طرح چھپائے جس طرح اپنے گناہ چھپاتاہے۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ، ج۵ ، ص ۱۰۵) {2} حضرتِ سیِّدُنا سَرِی سَقَطی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں: اگرتم اِخلاص کے ساتھ علیٰحَدَگی میں دو رَکعتیں پڑھو تو یہ بات تمہارے لئے 70 یا 700احادیث عمدہ اسناد کے ساتھ لکھنے سے بہتر ہے۔ (ایضا ، ص۱۰۶) فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: آدَمی کا ایسی جگہ نَفْل نَماز پڑھنا جہاں لوگ اسے نہ دیکھتے ہوں، لوگوں کے سامنے ادا کی جانے والی 25 نَمازوں کے برابر ہے۔ (جَمْعُ الْجَوامِع، ج۵، ص۸۳، حدیث: ۱۳۶۲۰) {3} ایک بُزُرْگ کا قول ہیـ: ایک ساعت کا اِخلاص ہمیشہ کی نَجات کا باعِث ہے لیکن اِخلاص بَہُت کم پایا جاتا ہے۔ (اِحیاءُالْعُلوم ج۵، ص ۱۰۶) {4} حضرت سیِّدُنا خواص رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں: جو شخص رِیاست (یعنی اِقتِداراور دوسروں پربَرتری ) کا پِیالہ پیتا ہے وہ بندگی کے ِاخلاص سے نکل جاتا ہے۔ (ایضا ، ص ۱۱۰ ) {5} حضرتِ سیِّدُنا فضیل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا: لوگوں کی وجہ سے عمل چھوڑنا ریا ہے اور مخلوق کو دکھانے کیلئے عمل کرنا شرِکِ (اصغر) ہے۔ (ایضاً ، ص ۱۱۰)
بعض بُزُرگوں نے فرمایا : اللہ تَعَالٰیجب کسی بندے کو ناپسند کرتا ہے تو اُسے تین باتیں عطا کرتاہے اور تین باتوں سے روک دیتا ہے {۱} اسے صالحین (یعنی نیک بندوں) کی صُحبت تو عطا کرتا ہے مگر وہ بندہ اُن کی کوئی بات قَبول نہیں کرتا {۲} اسے اچّھے اعمال کی توفیق تودیتا ہے لیکن اُسے اِخلاص سے نہیں نوازتا {۳} اسے حِکمت تو عنایت فرماتا ہے لیکن اُسے اس میں صداقت سے محروم رکھتا ہے۔ (ایضا ص ۱۰۶)
30برس کی نَمازیں قضا کیں
ایک بُزُرْگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں نے30برس کی نَمازیں قَضا کیں، وجہ اِس کی یہ ہوئی کہ میں ہمیشہ ہر نَماز پہلی صَف میں با جماعت ادا کرتا رہا۔ 30برس کے بعد کسی مجبوری کے سبب تاخیر ہو گئی اور مجھے دوسری صَف میں جگہ ملی، اِس سے مجھے شرمندَگی محسوس ہوئی کہ آج لوگ کیا کہیں گے ! یہ خیال آنے کے سبب میں جان گیا کہ جب لوگ مجھے پہلی صَف میں دیکھتے تھے تو اِس سے مجھے خوشی ہوتی تھی اوریہ بات میرے دل کی راحت کاباعِث تھی۔ (ورنہ مجھے شرمندَگی ہوتی ہی کیوں ، کہ آج لوگ کیا کہیں گے! توگویا 30برس سے میں لوگوں کو دکھانے کیلئے پہلی صَف میں نَماز پڑھتا رہا ہوں! ) (اِحیاءُ الْعُلوم، ج۵، ص۱۰۸، بِتَصَرُّفٍ )
حکایت : نہ ثواب ملا نہ عذاب
ایک طویل روایت میں ہے کہ ایک بُزُرگ نے وفات کے بعد کسی کے خواب میں فرمایا: میں نے ایک صَدَقہ لوگوں کے سامنے دیا تو اُن کا میری طرف دیکھنا مجھے پسند آیا تو میں نے انتقال کے بعد دیکھا کہ نہ تو مجھے اِس کا ثواب ملا اور نہ ہی اِس پر عذاب ہوا۔ حضرتِ سیِّدُنا سفیان ثوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکو جب یہ واقِعہ بتایا گیا تو فرمایا: ’’ یہ ان کا اچّھا مال ہے کہ عذاب نہ ہوا یہ تو عین اِحسان ہے۔ ‘‘ (اِحیاءُ الْعُلوم ، ج۵ ، ص ۱۰۵)
حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیفرماتے ہیں: ( بعض واعِظین و مبلِّغین) اِس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ لوگ ان کی بات توجُّہ سے سنتے اورقَبول کرتے ہیں اور ایساواعِظ (یامبلغ) دعویٰ کرتا ہے کہ میری خوشی کا باعِث یہ ہے کہ اللہ تَعَالٰی نے دین کی حمایت میرے لئے آسان کر دی۔ اگر اس (و اعظ یا مبلِّغ) کا کوئی ہم عَصْر اُس سے اچّھا وَعْظ (وبیان) کرتا ہو اور لوگ اِس سے ہٹ کر اُس کی طرفمُتَوَجِّہہو جائیں تو یہ بات اُسے بُری لگتی ہے اوروہ غمگین ہو جاتا ہے، اگر (اسکے اندر اخلاص ہوتا اور) اِس کے وَعظ (وبیان) کاباعِث دین ہوتا (اور اُس کے پیشِ نظر صِرْف لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا ہوتی تب ) تو وہ اللہ تَعَالٰیکا شکر ادا کرتا کہ اللہ تَعَالٰینے یہ کام دوسرے کے سِپُرد کر