ترجَمۂ کنزالایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بے شک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہو نا ہے
میٹھے میٹھے مَدَنی بیٹے! کسی کے بارے میں بدگُمانی پیدا ہوتو اپنے آپ کو اِس طرح ڈرایئے کہ بڑا عذاب تو دُور رہا میری حالت تو یہ ہے کہ جہنَّم کا سب سے ہلکا عذاب بھیبرداشت نہیں کر سکوں گا۔ آہ! ہلکا عذاب بھی کس قَدَر ہو لناک ہے! بخاری شریف میں حضرت ِسیِّدُنا ابنِ عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ’’ دوزخیوں میں سب سے ہلکا عذاب جس کو ہو گا اُسے آگ کے جوتے پہنائے جائیں گے جن سے اُس کا دماغ کھولنے لگے گا۔ ‘‘ ( بُخاری ، ج ۴ ، ص ۲۶۲ ، حدیث: ۶۵۶۱)
جہنَّم سے مجھ کو بچا یاالٰہی
مجھے نیک بندہ بنا یاالٰہی
{6} کسی کے بارے میں بد گُمانی پیدا ہو تو اپنے لئے دعاکیجئے
جب بھی کسی کے بارے میں ’’ بدگمانی ‘‘ ہونے لگے تواپنے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّکی بارگاہ میں یوں دُعا مانگئے: یاربِّ مصطَفٰے عَزَّ وَجَلَّ! تیرا یہ کمزور بندہ دُنیا وآخِرت کی تباہی سے بچنے کے لئے اِس بدگُمانی سے اپنے دِل کو بچانا چاہتاہے۔ یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! مجھے شیطان کے خطرناک ہتھیارب ’’ بدگُمانی‘‘ سے بچا لے۔ میرے پیارے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے اپنے خوف سے معمور دِل، رونے والی آنکھ اور لرزنے والا بدن عطا فرما۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
{7} جس کے لئے بد گُمانی ہو اُس کے لئے دعائے خیر کیجئے
جب بھی کسی اِسلامی بھائی کے لئے دِل میں بدگُمانی آئے تو اُس کے لئے دُعائے خیر کیجئے اور اُس کی عزّت واِکرام میں اضافہ کردیجئے ۔ حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِِسیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیارشاد فرماتے ہیں : ’’ جب تمہارے دِل میں کسی مسلمان کے بارے میں بدگُمانی آئے توتمہیں چاہیے کہ اس کی رعایت (یعنی عزّت و آؤ بھگت وغیرہ ) میں اِضافہ کردو اور اس کے لئے دُعائے خیر کرو ، کیونکہ یہ چیز شیطان کو غُصّہ دِلاتی ہے اور اُسے (یعنی شیطان کو) تم سے دُور بھگاتی ہے ، یوںشیطان دوبارہ تمہارے دِل میں براگُمان ڈالتے ہوئے ڈرے گا کہ کہیں تم پھر اپنے بھائی کی رِعایت اور اُس کے لئے دُعائے خیر میں مشغول نہ ہوجاؤ۔ ‘‘ (اِحیاءُ الْعُلوم، ج۳، ص۱۸۷) (بدگمانی سے متعلِّق زیادہ تر موادمکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ رسالے، ’’بدگمانی‘‘ (56صَفْحات) سے لیا گیاہے ، یہ رسالہ مکمّل پڑھنانہایت مفید ہے)
مجھے غیبت و چغلی و بد گمانی
کی آفات سے تُو بچا یاالہٰی
(وسائلِ بخشش ص ۸۰)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
جو لکھنے میں خطاکھا جاتا ہے وہ بولنے میں نہ جانے کیا کیا کہہ جاتا ہو گا!
عُموماً آدمی بَہُت سوچ سوچ کر چٹّھی وغیرہ لکھتا، لکھ کر نوک پلک سنوارتا اورکاٹ چھانٹ کرتا ہے تاکہ کہیں اپنی کوئی غَلَط تحریر کسی کے ہاتھ میں نہ چلی جائے تو اب اتنی احتیاطوں کے باوُجُود بھی جس پر شیطان کا ہتھیار چل جاتا ہو اور وہ غیر محتاط یا گناہوں بھرے الفاظ لکھ ڈالتا ہو خدا جانے جب وہ بولنے پر آتاہو گا تو اُس کی زُبان سے کیا کیا نکل جاتا ہو گا!
بدگمانی کے بارے میں اعلیٰ حضرت کا فتویٰ
بدگمانی کے مُتَعلِّق ’’فتاوٰی رضویہ‘‘ سے مختصر کردہ سُوال جواب مُلاحَظہ فرمایئے:
سُوال: زید کہتا ہے آج کل عُمُوماًفخر وتَفاخُر اوراپنی واہ واہ کروانے کیلئے دعوتیں دی جاتی ہیں لہٰذا وہ یعنی زید کسی دعوت میں نہیں جاتا۔ جواب: قَبولِ دعوت سنّت ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور اب کہ ایک مسلمان پر بِلا دلیل یہ گمان کیا کہ اِس کی نیّت رِیا وتَفاخُروناموری ہے تو یہ حرامِ قَطْعی ہوا۔ غیر مُعَیَّن پر حکم کسی مُعَیَّن مسلمان کے لئے سمجھ