سلام پھیرا تو (خوفِ خدا سے مغلوب ہو کر خود پسندی سے بچنے کیلئے بطورِ عاجِزی ) فرمایا: جو کچھ مجھ سے دیکھا ہے اس سے تمہیں تعجُّب نہیں ہونا چاہئے کیوں کہ شیطانِ لعین نے فِرِشتوں کے ہمراہ ایک طویل عرصہ اللہُ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کی پھر اس کا جو انجام ہوا وہ واضِح و ظاہِر ہے۔ (ایضاً ، ص۴۵۳)
{5} حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِیفرماتے ہیں: نیک کاموں کی توفیق اللہ تَعَالٰی کی نعمتوں میں سے ایک نعمت اور اُس کے عطِیّات میں سے ایک عَطِیَّہ (عَطِیْ۔ یَہ۔ یعنی بخشش) ہے لیکن خود پسندی ہی کی وجہ سے نادان انسان اپنی ذات کی تعریف کرتا اور پاکیزگی ظاہِر کرتاہے اور جب و ہ اپنی رائے ، عمل او ر عَقْل پر اِتراتا ہے تو فائدہ حاصِل کرنے ، مشورہ لینے اور پوچھنے سے باز رہتا اور یوں اپنے آپ پر اور اپنی رائے پر اعتِماد کرتا ہے۔ (کہ میں بھی تو سمجھ بوجھ رکھتا ہوں ، کیا ضَرورت ہے کہ دوسروں سے مشورہ لوں! ) (ایضاً ، ص ۸۲۲) آگے چل کر مزید فرماتے ہیں: عابِد کو اپنی عبادت پر ، عالم کو اپنے علم پر، خوبصورت کو اپنی خوبصورتی اورحُسن وجمال پر اور مالدار کو اپنی مالداری پر اِترانے کاکوئی حق نہیں پہنچتا کیونکہ سب کچھ اللہ تَعَالٰی کے فضل و کرم سے ہے۔ ( ایضاً ، ص ۸۳۶) یعنی ذِہانت ، علاج کرنے کی صلاحیّت ، خوش الحانی و خوش بیانی وغیرہ کی نعمت وغیرہ جس کو جو کچھ مِلا اُس میں بندے کا اپنا کوئی کمال ہی نہیں جو دیا جتنا دیا سب اللہ تَعَالٰی نے ہی دیاہے۔
حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِیفرماتے ہیں : صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ( مُتَّقی و پرہیز گار اورصِدق واخلاص کے پیکر ہونے کے باوُجُود خدا کے ڈر کے سبب) تمنّا کیا کرتے تھے کہ کاش! وہ مٹّی ، تنکے اور پرندے ہوتے۔ (تا کہ بُرے خاتمے اور عذابِ قبر وآخِرت سے بے خوف ہوتے) تو جب صَحابہ کی یہ کیفیت تھی توکوئی صاحِبِ بَصیرت ( سمجھدار شخص) کس طرح اپنے عمل پر اِتراسکتا یا ناز کر سکتا ہے اور کس طرح اپنے نَفْس کے مُعامَلے میں بے خوف رہ سکتا ہے! تویہ (یعنی صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا خوف اوران کی عاجِزی ذِہن میں رکھنا) خود پسندی کا علاج ہے اور اِس سے اِس کامادّہ بِالکل جڑ سے اُکھڑجاتا ہے اور جب یہ ( یعنی صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکے ڈر نے کا انداز) دل پر غالِب آتاہے تو سلبِ نعمت (یعنی نعمت چِھن جانے) کا خوف اِسے اِترانے ( اور خود کو ’’ کچھ‘‘ سمجھنے) سے بچاتا ہے بلکہ جب وہ کافِروں اور فاسِقوں کو دیکھتا ہے کہ کسی غَلَطی کے بِغیر ہی جب ان ( یعنی کافِروں ) کو ایمان سے محروم رَہنا پڑا اور اُن (یعنی فاسِقوں) کو اطاعت وفرماں برداری سے ہاتھ دھونا پڑا تو وہ (یعنی صَحابۂ کرام کا خوف یاد رکھنے والا شخص) اپنے حق میں ڈرتے ہوئے یہ بات سمجھ لیتا ہے کہ ربِّ کائنات عَزَّ وَجَلَّ کی ذات بے نیاز ہے وہ چاہے تو کسی کو کسی جُرم کے بِغیر ہی محروم کر دے اورجسے چاہے کسی وسیلے کے بِغیر ہی عطا کر دے۔ خدائے بے نیاز عَزَّ وَجَلَّ اپنی دی ہوئی نعمت بھی واپَس لے سکتا ہے۔ کتنے ہی مومِن (مَعَاذَ اللہ) مُرتَدہو گئے جبکہ بے شمار پرہیز گار واطاعت گزار فاسق ہو گئے اوران کا خاتِمہ اچّھا نہ ہوا۔ اس طرح کی سوچ سے خود پسندی ختم ہو جاتی ہے۔ (ایضاً ، ص ۴۵۸)
حُبِّ جاہ وخود پسندی کی مِٹا دے عادتیں
یا الٰہی! باغِ جنّت کی عطا کر راحتیں
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیارے مَدَنی بیٹے! یاد رکھئے ! یہ بھی شیطان کا ایک بہت بڑا اوربُرا ہتھیار ہے کہ آدَمی کو اِس خوش فہمی میں مبتَلا کردے کہ میں بَہُت اچھا انسان ہوں اور میں نے اسلام کی بَہُت خدمت کی ہے ۔ شیطان کے اِس وار کو ناکام بناتے ہوئے بس یہی ذِہْن بنا لیجئے کہ اپنے طور پر