شیطان کے بعض ہتھیار

ناصِحا!  مت کر نصیحت دل مِرا گھبرائے ہے

اُس کو دشمن جانتا ہوں جو مجھے سمجھائے ہے

          دعا گو ہوں کہ اللہُ ربُّ العزّت بَطُفیلِ تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہماری بے حساب مغفِرت کرے اور نصیحت قَبول کرنے والا قلب عنایت فرمائے۔    

اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الاَمِین صلَّی اللہُ تعالیٰ عَلیہ واٰلہ وسلَّم

 میٹھے میٹھے مَدَنی بیٹے! آپ کی مَیل میں مجھ پر ’’  شیطان کے بعض ہتھیاروں کاانکشاف‘‘  ہوا ہے۔  خدائے غفّار عزوجل ہمیں شیطان کے ہر وار سے محفوظ فرمائے۔    امین۔    برائے مہربانی سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا یہ ارشاد ِ گرامی :  ’’  مجھے وہ شخص محبوب (یعنی پیارا)  ہے جو میرے عُیُوب سے مجھے آگاہ کرے۔  ‘‘ (الطبقات الکبری لابن سعد   ،  ج۳،   ص۲۲۲،  )   پیشِ نظر رکھتے ہوئے میرے مَدَنی پھولوں پر ٹھنڈے دل سے غور فرماتے چلے جایئے۔  دیکھئے! مجھ سے ناراض نہ ہو جانا،    میرے آقا اعلیٰ حضرت  امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنکے اس اَنمول قول کا واسِطہ جس میں ارشاد فرمایاگیا ہے:   ’’انصاف پسند تو اُس کے مَمنون  ( یعنی شکر گزار)   ہوتے ہیں جو انہیں صَواب  ( یعنی دُرُستی )  کی راہ بتائے ۔ ‘‘  (ملفوظات اعلیٰ حضرت ،   (چار حصّے)   ص ۲۲۰ ،   مکتبۃ المدینہ،  باب المدینہ کراچی)  ہزار بار پاؤں پکڑ کر اورلاکھوں معذِرتوں کے ساتھ عرض ہے :  تحریر بسا اوقات اپنے مُحرِّر (یعنی لکھنے والے)  کی قلبی کیفیّات کی عَکاّس ہوتی ہے ،    مَیل پڑھ کر اِصلاح کی ضَرورت محسوس ہوئی لہٰذا کچھ مَدَنی پھول حاضرِ خدمت کرتا ہوں اگر میرے یہ مَحسوسات غَلَط ہوں تو دست بستہ مُعافی کی خیرات کا خواستگار ہوں۔   

خود کو   ’’  اَہمّ شخصیّت‘‘  سمجھنا بُھول ہے

   جب انسان اپنے آپ کو   ’’ اَہم ‘‘   نہ سمجھے تو اُسے کسی کے  ’’ نہ پوچھنے ‘‘    کا غم بھی نہیں پہنچتا ۔    میرے بھولے بھالے مَدَنی بیٹے ! جن کو پوچھا نہیں جاتا بسا اوقات اُن کی بھی اپنی شانیں ہُواکرتی ہیں۔   کاش کہ ہم بھی ایسے ہوتے جیسا کہ حضر تِ سیِّدُناحسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُناعلیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے ارشاد فرمایا:   ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّکے گمنام بندوں کے لیے خوشخبری ہے! وہ بندے جوخود تولوگوں کو جانتے ہیں لیکن لو گ انہیں نہیں پہچانتے اللہ عَزَّوَجَلَّنے (جنّت پرمقررفرِشتے حضرت سیِّدُنا)  رِضوان عَلَیْہِ السَّلَامکو ان کی پہچان کرادی ہے ،   یِہی لوگ ہِدایت کے روشن چَراغ ہیں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّنے تمام تاریک فتنے اِن پر ظاہِر فرما دئیے ہیں ۔   اللہ عَزَّ وَجَلَّ اِنہیں اپنی رَحْمت  (سے جنّت)  میں داخِل فرمائے گا۔   یہ شُہرت چاہتے ہیں نہ ظلم کرتے ہیں اور نہ ہی رِیا کاری میں پڑتے ہیں۔  ‘‘ (  ’’اللّٰہ والوں کی باتیں‘‘ ج ا،  ص ۱۶۲،  حِلْیَۃُ الْاولیاء ،   ج۱ص۱۱۸)  

دین کی خدمت کے سبب عزّت کی طلب

          میرے میٹھے میٹھے مَدَنی بیٹے !    کسی شخص کا اپنے لئے یہ ذِہْن بنالینا کہ میں نے چُونکہ دین کی خدمت کی  ( یا احکامِ شریعت کے عین مطابِق دعوتِ اسلامی کا مَدَنی کام کیا ہے)  اِس لئے مجھے فُلاں فُلاں مُراعات مِلنی ہی چاہئیں ،   میری حیثیَّت تسلیم کی جائے ،   میری حوصلہ اَفزائی ہونی چاہئے       (حالانکہ یہ ایک طرح سے اپنی تعریف کامطالَبہ ہے کہ حوصلہ افزائی عُموماً تعریف کر کے ہوتی ہے)   میری دلجوئی بھی ہوتی رہے ،    مجھ پر مصیبت آئے تو مجھے بشمول شخصیّات کثیر افراد دلاسا دیں    ( کہ میں نے دین کے بڑے بڑے کام جو کئے ہیں!  )  یاد رکھئے!  دین کی خدمت اعلیٰ دَرَجے کی عبادت ہے اور عبادت پردُنیا والوں سے عِوَض و بدلہ طلب کرنے کی اجازت نہیں ،    جسے اپنی دینی خدمات کا اِحْساس ہواور اِس بِنا پر اُس کانَفْس واہ واہ اور عزّت وغیرہ کی طلب محسوس کرے اُسے ’’  ریا کاری کی تعریف‘‘ پر نظر کر لینی چاہئے۔   چُنانچِہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 616 صَفْحات پر مشتمل کتاب ،   ’’  نیکی کی دعوت‘‘ صَفْحَہ 66 پر ہے : ریا کی تعریف یہ ہے:  ’’   اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رِضا کے علاوہ کسی اور اِرادے سے عبادت کرنا ۔  ‘‘  گویا عبادت سے

Index