شیطان کے بعض ہتھیار

یہ غَرَض ہو کہ لوگ اس کی عبادت پر آگاہ ہوں تاکہ وہ ان لوگوں سے مال بٹورے یا لوگ اس کی تعریف کریں یااسے نیک آدَمی سمجھیں یا اسے عزّت وغیرہ دیں۔     (اَلزَّواجِرُ عَنِ اقْتِرافِ الْکبائِر  ،  ج،  ۱ص،  ۸۶)  

ریا کاری کا دَرْد ناک عذاب

فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہے:   ’’بے شک جہنَّم میں ایک وادی ہے جس سے جہنَّم روزانہ چار سو مرتبہ پناہ مانگتا ہے،   اللہ عَزَّ وَجَلَّنے یہ وادی اُمّتِ محمدیہ عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے اُن رِیاکاروں کے لئے تیّار کی ہے جو قراٰنِ پاک کے حافِظ،    غیرُ اللّٰہ کے لئے صَدَقہ کرنے والے، اللہ عَزَّ وَجَلَّکے گھر کے حاجی اور راہ خدا عَزَّ وَجَلَّ میں نکلنے والے ہوں گے۔  ‘‘  (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر،  ج۱۲،  ص۱۳۶،  حدیث :  ۱۲۸۰۳)  

بچا لے رِیا سے بچا یاالٰہی

تُو اِخلاص کر دے عطا یاالٰہی

اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الاَمِین صلَّی اللہُ تعالٰی عَلیہ واٰلہ وسلَّم

 (تفصیلی معلومات کیلئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 166 صَفْحات پر مشتمل کتاب  ’’رِیاکاری‘‘  کا مُطالَعَہفرمایئے)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                 صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

خود پسندی کی تباہ کاریاں
خود پسندی کی تعریف

      میٹھے میٹھے مَدَنی بیٹے !    بسا اوقات آدَمی نیک کام توکرتاہے مگر اُس پر شیطان کا ہتھیار کارگرہو چکا ہوتاہے اوروہ اِسے اپنا ذاتی کارنامہ سمجھ بیٹھتا ہے اُسے یہ اِحْساس نہیں رہتا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی دی ہوئی توفیق ہی سے میں یہ کر رہا ہوں ۔   سبھی کیلئے ضَروری ہے کہ وہ شیطان کے اِس ہتھیار عُجْبیعنی’’  خود پسندی ‘‘کی تعریف اور اِس کی تباہ کاریوں پر نظر رکھیں ۔   خود پسندی کی تعریف یہ ہے:  اپنے کمال (مثلاً عِلْم یا عمل یا مال)  کو اپنی طرف نسبت کرنااور اس بات کا خوف نہ ہونا کہ یہ چِھن جائے گا۔  گویا خود پسند شخص نعمت کو مُنْعِمِ حقیقی  (یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ)  کی طرف منسوب کرنا ہی بھول جاتا ہے ۔   (یعنی ملی ہوئی نعمت مَثَلاً صِحّت یاحسن و جمال یا دولت یا ذِہانت یا خوش الحانی یا منصب وغیرہ کو اپنا کارنامہ سمجھ بیٹھنا اوریہ بھول جانا کہ سب ربُّ العزّت ہی کی عنایت ہے)    (اِحیاءُ الْعُلوم،     ج۳،  ص۴۵۴)

خود پسندی کی اَہَم وضاحت

           حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت ِسیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیلکھتے ہیں :  جو شخص علم،   عمل اورمال کے ذَرِیعے اپنے نَفْس میں کمال جانتا ہو اُس کی   ’’دو حالتیں ‘‘ ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے اُس کمال کے زَوال کاخوف ہو یعنی اِس بات کا ڈر ہو کہ اس میں کوئی تبدیلی آجائے گی یا بالکل ہی سَلْب اورختم ہوجائے گا تو ایسا آدَمی  ’’ خود پسند‘‘ نہیں ہوتا۔   دوسری حالت یہ ہے کہ وہ اس کے زَوال  (یعنی کم یا خَتْم ہونے)  کا خوف نہیں رکھتا بلکہ وہ اِس بات پر خوش اور مطمئن ہوتا ہے کہ اللہ تَعَالٰینے مجھے یہ نعمت عطا فرمائی ہے اِس میں میرا اپنا کمال نہیں۔    یہ بھی  ’’ خود پسندی‘‘   نہیں ہے اور اس کے لیے ایک تیسری حالت بھی ہے جو خود پسندی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے اس کمال کے زَوال (یعنی کم یا ختم ہونے)  کا خوف نہیں ہوتا بلکہ وہ اس پرمَسرورو مطمئن ہوتا ہے اور اس کی مَسرَّت کا باعِث یہ ہوتا ہے کہ یہ کمال ،   نعمت و بھلائی اور سر بُلندی ہے،  وہ اس لیے خوش نہیں ہوتا کہ یہ اللہ تَعَالٰیکی عنایت اور نعمت ہے بلکہ اس (یعنی خود پسند بندے)  کی خوشی کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے اپنا وَصْف  (یعنی خوبی)  اور خود اپنا ہی کمال سمجھتا ہے وہ اِسے اللہ تَعَالٰیکی عطاء وعنایت تصوُّر نہیں کرتا۔     (اِحیاءُ الْعُلوم ،  ج۳،  ص۴۵۴)

میں تو خوب دین کی خدمت کرتا ہوں!

 

Index