شیطان کے بعض ہتھیار

          بعض اوقات انسان بظاہِر اچّھے اعمال کرتاہے لیکن وہ اُس کے اپنے حق میں اچّھے نہیں ہوتے کیوں کہ شیطان کا ہتھیار اُس پر چل جانے کے سبب وہ اُس پر اِتراتا ہے کہ میں بَہُت نیک کام کرتا ہوں ،   خوب دین کی خدمت کرتا ہوں،  میں نے یہ بھی کیا اور وہ بھی کیا ،    وہ یہ بھول جاتا ہے کہ مجھے اس کی توفیق میرے پَرْوَرْدَگار عَزَّ وَجَلَّ نے عطا فرمائی ہے،    ایسےاِترانے والوں کو ڈر جانا چاہئے کہ پارہ 16 سُوۡرَۃُ الۡکَھۡف آیت نمبر104میں ربُّ العِباد کا ارشادِ عبرت بُنیاد ہے:

وَ هُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا (۱۰۴)

ترجَمۂ کنزالایمان:  اور وہ اس خیال میں ہیں کہ ہم اچّھا کام کر رہے ہیں۔    

        اِس آیتِ کریمہ کے تَحْتمُفَسِّرشَہیر،  حکیمُ الْاُمَّت،   حضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّانفرماتے ہیں: اِس سے معلوم ہوا کہ بدکار سے زیادہ بدنصیب وہ نیک کار ہے جومحنت اٹھا کر نیکیاںکرے مگر اُس کی کوئی نیکی اُس کے کام نہ آوے،   وہ دھوکے میں رہے کہ میں نیک کارہوں ۔   خدا کی پناہ۔    (نورُ العِرفان ص ۴۸۵)  

میں نے یہ کیا !    میں نے وہ کیا!   

    اپنے اعمال کو  ’’ کچھ‘‘ سمجھنا اور اس پر اِترانا اور اپنے منہ میاں مٹّھو بننا کہ  ’’میں نے یہ کیا!    وہ کیا!  ‘‘  یہ بُری صِفَت ہے اللہتَعَالٰیپارہ27 سُوۡرَۃُالنَّجۡم آیت نمبر32میں ارشاد فرماتا ہے :  
هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّةٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْۚ-فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۠ (۳۲)

ترجَمۂ کنزالایمان:  وہ تمہیں خوب جانتا ہے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں حمل تھے تو آپ اپنی جانوں کوسُتھرا نہ بتاؤ ،  وہ خوب جانتا ہے جو پرہیزگار ہیں ۔     

         اِس آیتِ کریمہ کے تَحْتمُفَسِّرشہیر،   حکیمُ الْاُمَّت،    حضر  تِ مفتی احمد یار خان  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّانفرماتے ہیں:  یہ آیت اُن لوگوں کے مُتعلِّق نازِل ہوئی جو اپنی نیکیوں پر فخر  کرتے تھے اور فخریہ کہتے تھے کہ ہماری نَمازیں ایسی ہیں! ہمارے روزے ایسے!    ہم ایسے!    اُس  (یعنی اللہ تَعَالٰی)  ہی کا جاننا کافی ہے تم اپنے تَقویٰ طہارت کا لوگوں میں کیوں اعلان کرتے ہو!    لُطْف تو جب ہے کہ بندہ کہے:    ’’میں گنہگار ہوں‘‘  رب (عَزَّوَجَلَّ)  کہے:  یہ پرہیز گار ہے!    جیسے ابوبکر صدِّیق   (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)    (نورُالعرفان ،  ص۸۴۱،  ۸۴۲)

          اس آیتِ کریمہ کے تحت حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیفرماتے ہیں:  حضرتِ سیِّدُنا ابنِ جُرَیج رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں:  اس کا معنیٰ یہ ہے کہ جب تم اچّھا عمل کرو تو یہ نہ کہو:   ’’ میں نے عمل کیا۔   ‘‘    (اِحیاءُ الْعُلوم ،  ج۳ ،  ص ۴۵۲)

خود پسندی کی مذمّت پر بُزُرگانِ دین کے 5فرامین

 {1}  اُمُّ الْمؤمِنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے پوچھا گیا کہ آدَمی گنہگار کب ہوتا ہے؟  فرمایا:  جب اُسے یہ گُمان ہو کہ میں نیکوکار یعنی نیک آدَمی ہوں۔    (اِحیاءُ الْعُلوم،   ج۳ ،  ص ۴۵۲)

 {2}  مشہور تابعی حضرتِ سیِّدُنازید بن اسلم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمفرماتے ہیں:  اپنے آپ کو نیکوکار مت قرار دو کیوں کہ یہ خود پسندی ہے۔    (ایضاً)  

 {3}   حضرتِ سیِّدُنامُطَرِّف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں:  میں رات بھر عبادت کروں اور صُبح خود پسندی میں پڑوں یعنی یہ سمجھوں کہ میں تو بڑا نیک آدَمی ہوں اِ س سے بہتریِہی ہے کہ رات سویا رہوں اور صُبح رات کی عبادت سے محرومی پر افسوس کروں۔      (ایضاً)

 {4}   حضرتِ سیِّدُنا بِشْر بن منصور عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْغَفُوران لوگوں میں سے تھے جن کو دیکھ کر اللہ تَعَالٰی اور آخِرت کا گھر یاد آتا ہے،   کیونکہ وہ عبادت کی پابندی کرتے تھے۔    آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے ایک دن نَماز پڑھی،   ایک شخص پیچھے کھڑا دیکھ رہا تھا۔   آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے

Index