شیطان کے بعض ہتھیار

دسمبر2012 ء بروز ہفتہ میری والدہ کا انتقال ہوا ،   ایمرجنسی میں پاکستان جانا پڑا ۔   ایک ہفتہ رُکا اس کے بعد واپسی ہوئی ۔  187ملکوں میں مَدَنی کام کرنے والی دعوتِ اسلامی میں سے صِرْف پانچ اسلامی بھائیوں نے فون کرکے تعزیَت کی ۔  ایک رُکْنِ شوریٰ کے مکتب کی طرف سے 41 قراٰنِ پاک کے ایصالِ ثواب کی ترکیب کی گئی ۔    ایک اور رُکنِ شوریٰ نے فون کیا مگرصِرْف تسلّی دی ، ایصالِ ثواب کچھ نہیں ۔   فاتِحہ خوانی کے لئے ایک اور ذِمّے دار تشریف لائے انہوں نے ایصالِ ثواب بھیجنے کا کہا لیکن میں اُن کے ایصالِ ثواب کا انتِظار ہی کرتا رہا، ان کو اور نگرانِ شہر کو ہفتہ کے دن ختمِ پاک کی دعوت بھی دی لیکن۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  کیونکہ غریب آدَمی ہوں۔   

دعوتِ اسلامی کی طرف سے ایصالِ ثواب۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  46 قرآنِ پاک،   انفرادی کوشِش سے۔  ۔  ۔  ۔  313 قرآنِ پاک تقریباً،  اس کے علاوہ دُرُودِ پاک لاکھوں کی تعداد میں ،   کلمہ پاک لاکھوں کی تعداد میں ،   سورۂ یٰسین شریف ،   سورۂ ملک ،   سورۂ رحمن اور بہت کچھ ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  بہت سے اسلامی بھائی جو داڑھی والے نہیں انہوں نے بھی لاکھوں کی تعداد میں دُرُود پاک ایصال ثواب کیا ۔  اس کے برعکس۔  ۔  ۔  ۔    (مقام کانام حذف کیا ہے) ایک امیر آدمی کی زوجہ بیمار تھی اس کی تیمار داری کے لئے امیراہلسنّت  مَدَّظِلُّہسے فون کروایا گیا اور اس کو مدنی خبروں میں بھی دکھایا گیا ،   یہ میری والدہ (کی وفات)  سے شاید تین دن بعد کا واقعہ ہے ۔   

پچھلے سال۔  ۔  ۔  ۔  ۔   (مقام کانام حَذْف کیا ہے)  ایک امیرا سلامی بھائی کا بیٹا فوت ہوگیا ،    رُکنِ شوریٰ نے اپنا جدول منسوخ کیا اور اس کے جنازے میں شرکت کی ترکیب کی ۔   امیرِاہلسنّت اور نگرانِ شوریٰ سے فون بھی کروائے گئے ،   ان کے ختم شریف پر رُکنِ شوریٰ نے بیان بھی کیا ۔   

بیرونِ ملک میں ایک غیر مسلم کے پاس کام کرتا ہوں اس نے تین دفعہ فون کیا اور تعزیت کی ۔    میرے پاس جو لوگ تعزیت کے لئے آئے ان میں قونصلر جنرل آف پاکستان اور اس کا عملہ ،   ایک سیاسی جماعت کا مقامی صدر،   پریس اور وہاں کے مقامی علماء اور بَہُت سے چاہنے والے ۔   

          کاش!    اس مشکل وَقْت میں میری تحریک کے اسلامی بھائی مجھے حوصلہ دیتے اور اپنے رشتے داروں اور اہلِ محلہ کے سامنے میرا بھی بھرم رہ جاتا ،   بہرحال یہ احساس ہوا کہ ’’ اگر میں امیر ہوتا تو ایسا نہ ہوتا ۔   ‘‘

دنیا تے جو کام نہ آوے اوکھے سوکھے ویلے

اس بے فیض سنگھی کولوں بہتر یار اکیلے

          وَالسّلام

سگِ مدینہ کا احساس۔  ۔  ۔  ۔  ۔  کہیں مجھ سے کوئی ناراض نہ ہو جائے۔  ۔  ۔  ۔  ۔ 

          اسلامی بھائیوں کی خدمتوںمیں ترغیباً عرض ہے کہ مَیل پڑھ کر سگِ مدینہعُفِیَ عَنْہُ  کوماضی میں مختلف جنازوں میں نیز تعزیتوں اورعِیادتوں کے لئے جانا یاد آرہا ہے۔   شاید ہی کوئی دعوتِ اسلامی والا ایسا ہو گا جس نے مجھ سے زیادہ عیادتیں کی،   جنازے پڑھے اورتدفین میں حِصّہ لیا ہو،    مجھے ڈر لگتا تھا کہ کہیں میِّتوں کی تعزیتوں اور مریضوں کی عِیادتوں کیلئے گھر وں اور اَسپتالوں میں جانے کے تعلُّق سے میری سستیوں اور کوتاہیوں کے سبب کہیں کوئی مجھ سے ناراض ہو کر سنّتوں بھرے مَدَنی ماحول سے دُور نہ جا پڑے!  میرے خیال میں اگر کسی کے   ’’سکھ‘‘  میں حصّہ نہ بھی لیا جائے توآدَمی اتناناراض نہیں ہوتا جتنا  ’’دُکھ‘‘  یعنی بیماری،   پریشانی یا وفات کے مُعامَلات میں ہمدردی نہ کرنے والے سے ناراض ہوتا ہے!    اِس ضِمْن میں مَدَنی ماحول ہی کی ایک حِکایت پیش کرتا ہوں،   چُنانچِہ

۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  تومیں دعوتِ اسلامی والوں سے دُور ہو گیا

        ایک غریب اسلامی بھائی کا قصّہ زیادہ پُرانانہیں،   اُنہوں نے  (سگِ مدینہعُفِیَ عَنہُ کو )   جوکچھ بتایا وہ اپنے الفاظ میں عرض کرتا ہوں:  ’’ میں برسوں سے مَدَنی ماحول سے وابَستہ تھا،   اپنی بِساط بھر دعوتِ اسلامی کاکچھ نہ کچھ مَدَنی کام بھی کرلیا کرتا تھا۔    میں بیمار ہوا،  مَرَض نے طول پکڑا حتّٰی کہ

Index