صاحِبِ فِراش ہو گیا اور چھ ماہ تک بسترِعَلالت پر پڑا رہا، صدکروڑ افسوس! بیماری کے اُس مکمَّل دَورانیے میں ہمارے شہر کے کسی ’’ میٹھے میٹھے اسلامی بھائی ‘‘ کامجھ دُکھیارے کے غریب خانے پر تشریف لاکرعِیادت کرناتوکُجا، کسی نے فون بھی نہ کیا، بلکہ یقین مانئے دلجوئی کیلئے S.M.S. کرنے تک کی کسی نے زَحْمت گوارا نہ فرمائی۔ بِنا بَریں دعوتِ اسلامی والوں سے ایک دم میرا دل ٹوٹ گیا اورمیں ان سے دُور ہو گیا، ہاں ایک نیک دل بندہ جو عَمَلاً دعوتِ اسلامی میں نہیں ہے اُس نے مجھ پر کمال دَرَجہ شفقت کامظاہَرہ کیا، حتّٰی کہ وہ مجھے ڈاکٹروں کے پاس بھی لے جاتارہا ، میرے دل میں اُس کی مَحَبَّت راسِخ ہوگئی اورمیں اُس کے قریب تَرہو گیا۔ ‘‘
اللہ تَعَالٰی جنَّت کے دوجوڑے پہنائے گا
معلوم ہوا کسی دُکھیارے اسلامی بھائی کی دلجوئی نہ کرنے سے اُس کے مَدَنی ماحول سے دُور جا پڑنے کااندیشہ ہوتا ہے اگر چِہ دُور نہیں ہونا چاہئے کہ یہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا مارنے کے مترادِف ہے مگر شیطان وَسوَسے ڈال کر اُس کی آخِرت تباہ کرنے کی کوشِش تیز تر کر دیتا ہے لہٰذا اِس طرح کئی دُور ہو جاتے ہیں، پھر ایسے میں جوکوئی اُن پر ہاتھ رکھ دے اُسی کے ہو جاتے ہوں گے اورکیا بعید اس طرح کئی بے عمل توکچھ بد عقیدہ بھی بن جاتے ہوں ! بَہَرحال مصیبت زدہ کی تعزیت میں حکمت ہی حکمت ہے اور یہ ثوابِ آخِرت کاکام ہے ۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو کسی غمزدہ شخص سے تعزیت کر ے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّاُسے تَقوٰی کا لباس پہنائے گا اور رُوحو ں کے درمِیان اس کی رُوح پر رَحْمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّاُسے جنّت کے جوڑوں میں سے دوایسے جوڑے پہنائے گا جن کی قیمت (ساری ) دنیا بھی نہیں ہوسکتی۔ ( اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط، ج۶ ، ص ۴۲۹، حدیث: ۹۲۹۲)
تعزیت کا معنیٰ ہے : مصیبت زدہ آدمی کو صبر کی تلقین کرنا ۔ ’’تعزیت مسنون (یعنی سنّت ) ہے۔ ‘‘ (بہار ِشریعت ، ج۱، ص۸۵۲)
بسااوقات غمخواری اورتعزیت کے دنیا میں بھی ثمرات دیکھے جاتے ہیں ، چُنانچِہ یہ اُن دنوں کی بات ہے جن دنوں نورمسجِد کاغذی بازار بابُ المدینہ کراچی میں میری امامت تھی، ایک اسلامی بھائی پہلے میرے قریب تھے پھر کچھ دُور دُور رہنے لگے تھے، مگر مجھے اندازہ نہ تھا۔ ایک دن فَجر کے بعد مجھے اُن کے والِد صاحِب کی وفات کی خبرملی ، میں فوراً اُن کے گھر پہنچا، ابھی غسلِ میِّت بھی نہ ہوا تھا، دُعافاتِحہ کی اورلوٹ آیا، نَمازِجنازہ میں شریک ہو کر قبرِستان ساتھ گیا اورتدفین میں بھی پیش پیش رہا۔ اس کے فوائد تصوُّر سے بھی بڑھ کر ہوئے، چُنانچِہ اُس اسلامی بھائی نے خود ہی اِنکِشاف کیا کہ مجھے آپ کے بار ے میں کسی نے وَرْغَلایا تھا، اُس کی باتوںمیں آ کر میں آپ سے دُور ہو گیا اوراِتنا دُور کہ آپ کوآتا دیکھ کر چُھپ جاتاتھا لیکن میرے پیارے والِدصاحِب کی وفات پر آپ کے ہمدردانہ انداز نے میرا دِل بدل دیا، جس آدَمی نے مجھے آپ سے بَددل کیا تھا وہ میرے والِد مرحوم کے جنازے تک میں نہیں آیا۔ اِس واقِعے کو تادمِ تحریر کوئی 35سال کا عرصہ گزر چکا ہو گا، وہ اسلامی بھائی آج بھی بَہُت مَحَبَّت کرتے ہیں، نہایت با اثر ہیں، تنظیمی طور پر کام بھی آتے ہیں، داڑھی سجائی ہوئی ہے، خودمیرے پیر بھائی ہیں مگران کے بال بچّے نیز دیگر بھائی اور خاندان کے مزید افراد عطّاری ہیں، چھوٹے بھائی کا مَدَنی حُلیہ ہے اور دعوتِ اسلامی کے ذمّے دار ہیں بڑے بھائی بھی با عمامہ ہیں۔
دعوتِ اسلامی میں بھاری اکثریَّت غریبوں کی ہے
اگر چِہ کسی صاحِبِ ثَروت یا حامِلِ مَنصب ومنزِلت شخصیّت کی عِیادت یا اُس کے ساتھ تعزیَت کرنا کوئی خلافِ شَریعت عمل نہیں ، اچّھی اچّھی نیّتوں کے ساتھ سنَّت کے مطابِق ان کی عِیادت و تعزیت بھی یقینا باعثِ ثوابِ آخِرت ہے۔ مگر یہ نہ ہو کہ صِرْف مالداروں، افسروں اور دُنیوی شخصیتوں کی غمخواریاں ہوتی رہیں اور بے چارے غریب انتظار ہی کرتے رہیں۔ سچ پوچھو تو دعوتِ اسلامی پہلے غریبوں اور ناداروں کی ہے بعد میں مالداروں کی، دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کام دُنیا بھر میں پھیلانے والوں میں غُرَبا ہی صفِ اوّل میں ہیں۔ وقفِ مدینہ ہوکر دعوتِ اسلامی کیلئے اپنی جوانیاں