بد گُمانی بَہُت بڑی اوربُری آفت ہے ، یہ انسان کو جہنَّم میں پہنچا سکتی ہے، اس کے بارے میں ضَروری اَحْکام اور اِس کا علاج جاننا ’’ فرض‘‘ ہے۔
حُسُنُ الظَّنّ کے سات حروف کی نسبت سے بدگمانی کے مختصراً7علاج
{1} مسلمان کی خوبیوں پر نظر رکھئے
مسلمانوں کی خامیوں کی ٹَٹول کے بجائے اُن کی خوبیوں پر نظر رکھئے ، جوا ن کے متعلِّق حسنِ ظن رکھتا ہے اُس کے دل میں راحَتوں کا بَسیرا اور جس پر شیطان کا ہتھیار کام کر جائے اور وہ بد گُمانی کی بُری عادت میں مبتَلا ہو جائے، اُس کے دل میں وَحْشتوں کا ڈَیرا ہوتا ہے ۔
{2} بدگُمانی ہو تو توجُّہ ہٹا دیجئے
جب بھی کسی مسلمان کے بارے میں دِل میںبُرا گُمان آئے تو اسے جھٹک دیجئے اور اس کے عمل پر اچھا گُمان قائم کرنے کی کوشِش فرمایئے۔ مَثَلاً کسی اسلامی بھائی کونعت یا بیان سنتے ہوئے روتا دیکھ کر آپ کے دِل میں اُس کے متعلِّق رِیاکاری کی بدگُمانی پیدا ہو تو فوراً اِس کے اِخلاص سے رونے کے بارے میں حُسنِ ظن قائم کر لیجئے۔ حضرتِ سیِّدُنا مَکْحُول دِمَشْقِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں: ’’ جب تم کسی کو روتا دیکھو تو خود بھی روؤاور اُسے رِیا کار نہ سمجھو ، میں نے ایک دَفْعہ کسی شخص کے بارے میں یہ خیال کیا تو میں ایک سال تک رونے سے محروم رہا۔ ‘‘ (تَنبِیہُ الْمُغتَرِّیْن ، ص۱۰۷)
خدا! بدگمانی کی عادت مٹا دے
مجھے حُسنِ ظن کا تو عادی بنا دے
{3} خود نیک بنئے تا کہ دوسرے بھی نیک نظر آئیں
اپنی اِصلاح کی کوشِش جاری رکھئے کیونکہ جو خود نیک ہو وہ دوسروں کے بارے میں بھی نیک گُمان (یعنی اچھے خیالات ) رکھتا ہے جبکہ جو خود بُرا ہو اُسے دوسرے بھی بُرے ہی دکھائی دیتے ہیں ۔ عَرَبی مَقُولہ ہے : اِذَا سَاءَ فِعْلُ الْمَرْءِ سَاءَ تْ ظُنُوْنُہٗ یعنی جب کسی کے کام بُرے ہوجائیں تو اُس کے گُمان (یعنی خیالات ) بھی بُرے ہوجاتے ہیں۔ (فیض القدیر ، ج۳، ص۱۵۷) اِمامِ اَہلسنّت مُجَدِّد ِ دین و ملّت مولاناشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰننَقْل فرماتے ہیں: ’’ خبیث گُمان خبیث دل ہی سے نکلتا ہے ۔ ‘‘ (فتاوٰی رضویہ، ج۲۲ ، ص۴۰۰)
مِرا تن صفا ہو مِرا مَن صفا ہو
خدا! حُسنِ ظن کا خزانہ عطا ہو
{4} بُری صُحْبت بُرے گمان پیدا کرتی ہے
بُری صُحبت سے بچتے ہوئے نیک صُحبت اِختِیار کیجئے، جہاں دوسری بَرَکتیں ملیں گی وَہیں بدگُمانیسے بچنے میں بھی مدد حاصِل ہو گی ۔ حضرتِ سیِّدُنا بِشْر بن حارِث رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : صُحْبَۃُ الْاَشْرَارِ تُوْرِثُ سُوْ ءَ الظَّنِّ بِالْاَخْیَارِ یعنی بُروں کی صُحبت اچّھوں سے بدگُمانی پیدا کرتی ہے ۔ (رسا لہ قُشیریہ، ص۳۲۷)
بُری صحبتوں سے بچا یاالٰہی
تو نیکوں کا سَنگی بنا یاالٰہی
{5} کسی سے بدگُمانی ہو تو عذابِ الٰہی سے خود کو ڈرایئے
جببھی دِل میں کسی مسلمان کے بارے میں بدگُمانی پیدا ہوتوخود کو بدگُمانی کے انجام اور عذابِ الٰہی سے ڈرائیے ۔ پارہ 15 سُوۡرَۂِ بَنِیۡٓ اِسۡرآءِیۡل کی آیت نمبر 36میں اللہ تَبَارکَ وَ تَعالٰی کا فرمانِ عبرت نشان ہے:
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶)