لینا بدگُمانی ہے جب تک اس کے قرائِنِ واضِحہ نہ ہوںاور بد گمانی حرام۔ (مُلَخَّص ازفتاویٰ رضویہ ، ج۲۱، ص۶۷۲، ۶۷۳)
نَماز جنازہ وایصالِ ثواب کے بارے میں ناراضی سے بچانے والے مَدَنی پھول
یہ مسائل ذِہْن نشین فرما لیجئے: (۱) مسلمان کی نَمازِ جنازہ فرضِ کِفایہ ہے جن جن کو اِطِّلاع مِلی اُن میں سے بعضوں نے اداکرلی تب بھی فرض اداہوچکاتو اب جو نہیں آئے وہ گنہگار نہیں ہیں، اُن نہ آنے والوں کے بارے میں بد گُمانیاں ضَرور گناہ ہیں، اُن کی مُخالَفَت کی ہر گز اجازت نہیں (۲) تعزِیت مَسنون ہے، ایصالِ ثواب یا اس کی مجلس میں شرکت مُستَحب ہے۔ اِطِّلاع ہونے کے باوُجُود اگر کسی نے تعزِیت یا مجلس میں شرکت نہ کی توشَرْعاً گنہگار نہ ہوا، اُس پر تہمت رکھنے، غیبت وبدگمانی کرنے اور اُسے بُرا بھلا کہنے والا ضَرور گنہگار اور عذابِ نار کا حقدار ہے۔ حقّ تو یہ ہے کہ بِا لْفَرض مجلس میں شرکت نہ کرنا گناہ ہو تب بھی مسلمان کا پردہ رکھنے کاحُکْم ہے، اب جبکہ گناہ ہی نہیں تو پھر اُس پر زُبانِ طَعْن کھولنا کہاں کی نیکی ہے! یاد رکھئے! فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہے: ہرمسلمان کی عزّت ، مال اور جان دوسرے (مسلمان) پر حرام ہے۔ ( تِرمِذی، ج۳، ص۳۷۲، حدیث: ۱۹۳۴)
ہاںمُروَّت کا تقاضا یِہی ہے کہ اگرجاننے والوں میں سے کسی پر کوئی مصیبت آئے تو اَخلاقی طور پراُس کے یہاں جاناچاہئے ۔ دُکھیاروں کی دلجوئی سے خود کو محروم رکھنے میں دو نقصانات نُمایاں ہیں: (۱) خود اپنی ثواب سے محرومی (۲) اُس دُکھی اسلامی بھائی کے دل میں وَسوَسے آنے اور اُس کے مَدَنی ماحول سے دُور ہو جانے کا اندیشہ۔
شخصیّات سے تعلُّقات کے مُتَعلِّق اَہم وضاحتیں
مساجد یا مدارِس یا مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ کی تعمیرات نیز دیگر مَدَنی کاموں کیلئے عطیّات کے حُصُول کی حِرْص میں کسی سرمایہ دار سے چھوٹے ذِمّے دار کا بڑے ذِمّے دار کی فون پر بات یا ملاقات کروانا یقیناکارِ ثوابِ آخِرت ہے اور حُسنِ نیّت کی بِناپر اس میں ضَرور استِحقاقِ جنَّت ہے، اِس طرح کی نیکی کے عظیم مَدَنی کام پر تنقید یا گِلہ شکوہ ہر گز صحیح نہیں۔ ایسا کرنے والے ذِمّے داروں پر مالداروںکی چاپلُوسی اورخوشامد کی بد گمانی حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے، بلکہ کوئی بے سبب بھی مالداروں سے تعلُّقات رکھے تو حرج نہیں جبکہ کوئی اورمانِعِ شرعی نہ ہو۔ ہاں دنیا دار کی صحبت اور بے مقصد دوستی میں بھلائی کی اُمّید کم اور نقصان کا پہلو غالِب ہے ، خُصُوصاً عُلماء، صُلَحاء اورمُبلِغین وغیرہ کواحتیاط اَنسب تاکہ لوگ بد گمانیوں کے گناہوں میں نہ پڑیں۔
کیا شخصیّت کا تعزیَت کرنا آخِرت کیلئے باعِث سعادت ہے؟
خوب معذِرت کے ساتھ عَرض ہے، آپ کی مَیل کے مطابِق آپ جناب کی امّی جان کی تعزیَت کیلئے بھی تو ’’ بڑی بڑی شخصیات ‘‘ کا وُرُود ہوا تھا! ظاہِر ہے ایسا بِغیر تعلُّقات کے نہیں ہوا کرتا بلکہ بسااوقات بڑی شخصیّات کے ذَرِیعے تعزیت کی ’’ سعادت‘‘ پانے کیلئے بھی سفارشوں اورترکیبوں کی ضَرورت پڑتی ہے ! ہاں مَدَنی شخصیّات یعنی عُلَماء وصُلَحاء کی تشریف آوری بے شک سعادت ِدارَین کا سبب ہے۔ کسی دُنیوی افسر کی افسری سے فوت شدگان کے پسماندگان کی واہ واہ تو ہو سکتی ہے مگرجو دنیا سے جا چکے ان کو آخِرت کاکیا فائدہ پہنچ سکتا ہے! بَسببِ منصب ایسوں کی آمد کی خواہش اورآئیں توخوشی پھر پُھول پُھول کر دوسروں سے تذکرہ کرنا کہ اپنے یہاں تو فُلاں فُلاں افسرولیڈر بھی تعزیَت کیلئے آیا تھا! یقین مانئے اِس انداز میںحُبِّ جاہ ( یعنی عزّت و شہر ت سے مَحَبَّت ) کا اندیشہ بَشِدّت موجود ہے! بَہَرحال ’’ دُنیوی شخصیّات ‘‘ سے مُراسِم رکھنے والے، ان سے فون پر بات کرنے کروانے والے کی اُن کی اپنی نیّت اُن کے ساتھ، ہم دلوں پر حُکْم لگانے والے کون ہوتے ہیں! ہمیں ان کے بارے میں اچّھا سوچنا چاہئے، مسلمان کے افْعال کے بارے میں حُسنِ ظن رکھنا ضَروری ہے، اعلیٰ حضرت امامِ اہلِسنّت مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں: مسلمان کافِعل حتَّی الامکان مُحملِ حَسَن پر مَحمول ( یعنی اچّھا گُمان ) کرنا واجِب ہے اور ’’ بدگمانی‘‘ رِیا سے کچھ کم حرام نہیں۔ (فتاوی رضویہ، ج۵ ، ص ۳۲۴)