عاشق اکبر

          اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان دونوں  مُقدّس ہستیوں  کی حِفاظت کے ظاہِری اَسباب بھی پیدا فرما دیئے وہ اِس طرح کہ جونہی جنابِ رسالت مآبصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر  رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مَعِیَّت (یعنی ہمراہی)  میں  غارِ ثور میں  داخِل ہوئے تو خدائی پہرہ لگا دیا گیا کہ غار کے منہ پر مکڑی نے جالا تَن دیا اور کَنارے پر کبوتری نے انڈے دے دئیے۔دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 680 صَفحات پر مشتمل کتاب ،  ’’ مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب ‘‘ کے صَفْحَہ132پر ہے : یہ سب کچھ کفّارِ مکہ کو غار کی تلاشی سے باز رکھنے کے لئے کیا گیا، اُن دو کبوتروں  کو ربِّ ذُوالْجَلال عَزَّوَجَلَّ نے ایسی بے مثال جزا دی کہ آج تک حَرَمِ مکّہ میں  جتنے کبوتر ہیں  وہ اُنہی دو کی اَولاد ہیں  ، جیسے اُنہوں  نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے نبیِّ رَحمت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی حِفاظت کی تھی ویسے ہی ربعَزَّوَجَلَّنے بھی حَرَم میں  اُنکے شِکار پر پابندی عائِدفرمادی۔ (مُکاشَفۃُ الْقُلوب ج۱ ص۵۷ دارالکتب العلمیۃ بیروت )

فانوس بن کے جس کی حِفاظت ہَوا کرے

وہ شمع کیا بُجھے جسے روشن خدا کرے

          جب کُفّارِقریش نے وہاں  کبوتروں  کا گھونسلا اور اُس میں  انڈے دیکھے تو کہنے لگے: اگر اس غارمیں  کوئی انسان موجود ہوتا تو نہ مکڑی جالا تنتی نہ کبوتری  انڈے دیتی ۔ کُفّار کی آہٹ پا کر عاشقِ اکبر حضرت صِدِّیقِ اَکبر  رضی اللہ تعالٰی عنہ کچھ گھبرا گئے اور عرض کی:  یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم!  اب دُشمن ہمارے اس قدَر قریب آگئے ہیں  کہ اگر وہ اپنے قدموں  پر نظر ڈالیں  گے تو ہمیں  دیکھ لیں  گے۔حُضُورِ اکرم ،نُورِ مُجَسَّمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے فرمایا: لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ-  (پ۱۰، التوبۃ:۴۰)  ترجَمۂ کنز الایمان :  ’’ غم نہ کھا،بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ‘‘

          اعلیٰ حضرت، امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمۃُالرَّحمٰنمکّے مدینے کے سلطان، سرورِ ذیشان ،  سرکارِ دوجہاں صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے اِس مُعجزۂ عالی شان اور خواریٔ دُشمنان کوبیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :  ؎

جان ہیں ، جان کیا نظر آئے

کیوں  عَدو گردِ غار پھرتے ہیں  (حدائقِ بخشش شریف)

            پھرعاشقِ اکبر حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر  رضی اللہ تعالٰی عنہ پر سکینہ اُتر پڑا کہ وہ بالکل ہی مطمئن اور بے خوف ہو گئے اور چوتھے دن یکم ربیعُ النُّور بروز دوشَنبہ  (یعنی پیرشریف)  حضور ِ نامدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم غار سے باہَر تشریف لائے اورمدینۂ منوَّرہ زادَھَااللہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْماً روانہ ہو گئے۔ ( ماخوذ ازعجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص۳۰۳۔۳۰۴ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !                                            صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد

واہ !  رے مکڑی تیرا مقدّر!

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اَلحمدُلِلّٰہ!  محبوبِ ربِّ اَکبرصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اورصِدِّیق اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کامیاب و بامُرادہوئے اور تلاش کرنے والے کُفّارِ بَداَطوار  ناکام ونامُراد ہوئے۔ مکڑی نے جُستجُو کا دروازہ بند کر کے غار کا دَہانہ  (منہ)  ایسا بنادیا کہ وہاں  تک سُراغ رسانوں  (یعنی جاسوسوں )  کی سوچ بھی نہ پہنچ سکی اوروہ مایوس ہو کر واپس پلٹے اور  مکڑی کو لازَوال سعادَت مُیَسَّرآئی جس کو  ’’  مُکاشَفَۃُ القُلُوب ‘‘  میں  حضرتِ سیِّدُنا ابنِ نَقِیب عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِالحسیب نے کچھ یوں  بیان کیا:ریشم کے کیڑوں  نے ایسا ریشم بُنا جو حُسن میں  یکتا (یعنی بے مثال)  ہے مگر وہ مکڑی اِن سے لاکھ درَجے بہتر ہے اِس لئے کہ اُس نے غارِ ثور میں سرکارِ عالی وقارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے غار کے دَہانے  (یعنی منہ)  پر جالا بُنا تھا۔ (مُکاشَفۃُ الْقُلوب ج۱ ص۵۷)  

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !                                      صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد

 

Index