صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ المنان فرماتے ہیں :حُضُور اَنورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی وَفات زَہر کے عَود کرنے (یعنی لَوٹ آنے) سے ہوئی۔ ([1]) اِسی طرح حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صِدّیقرضی اللہ تعالٰی عنہکی وفات اُس وقت سانپ کا زہر لوٹ آنے سے ہوئی، جس نے ہجرت کی رات غار میں آپ کو ڈَسا تھا۔ حضرت صِدّیق کو فَنَا فِی الرَّسُوْل کا وہ درَجہ حاصِل ہے کہ آپ کی وَفات بھی حضور اَنور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی وَفات کا نُمونہ ہے، پیر کے دن میں حضورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وَفات اور پیر کا دن گزار کر شب میں حضرت صِدّیقرضی اللہ تعالٰی عنہ کی وفات۔ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وَفات کے دن شب کو چَراغ میں تیل نہ تھا، حضرت ِصِدّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وَفات کے وقت گھر میں کفن کے لیے پیسے نہ تھے۔ یہ ہے فنا۔ (مراٰۃ المناجیح ج۸،ص۲۹۵ ضیاء القراٰن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور)
اِمامِ عشق ومحبت، یارِ ماہِ رِسالت حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبررضی اللہ تعالٰی عنہ کی سَفَرِ ہجرت کی بے مثال اُلفت وعقیدت کو سراہَتے ہوئے اعلیٰ حضرت ،عظیم ُ البَرَکَترحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں : ؎
صِدِّیق بلکہ غار میں جاں اُس پہ دے چکے اور حفظِ جاں تو جان فُروضِ غُرَر کی ہے
ہاں ! تونے اِن کو جان، اُنہیں پھیر دی نماز پر وہ تو کر چکے تھے جو کرنی بَشَر کی ہے
ثابِت ہوا کہ جُملہ فرائض فُروع ہیں اَصلُ الْاُصُوْل بندَگی اُس تاجوَر کی ہے (حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آپ حضرات نے رسولِ انور، محبوبِ ربِّ اکبرصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّماورمحبوبِ حبیب ِ داور،عاشقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے آخِرت کے سَفَرمیں مُوافَقت مُلاحَظہ فرمائی کہ شاہِ ِجُودونَوال صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے گھر بوقتِ وِصال چراغ میں تیل نہ تھا آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جانِثارصدِّیق خوشخِصال رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حال یہ تھا کہ بے وفا دُنیا کی فانی دولت کے پیچھے بھاگنے کے بجائے سرمایۂ عشق ومَحَبَّت کو سمیٹا،اپنے آپ کو تکلیفوں میں رکھنا گواراکیااوراسی حالت کو راحتِ ہردوسرا (یعنی دونوں جہاں کا سکون) جانا۔
جان ہے عشقِ مصطفی روز فُزُوں کرے ([2]) خدا
جس کو ہو دَرد کا مزہ نازِ دوا اٹھائے کیوں (حدائقِ بخشش)
پتا چلابارگاہِ ربُّ العزّت میں صاحب ِ قَدَر ومَنزِلَت وہ نہیں جس کے پاس مال و دولت کی کثرت ہے بلکہ صاحبِ شرافت وفضیلت اور زیادہ ذی عزَّت وہ ہے جو زیادہ تقویٰ و پرہیزگاری کی دولت سے مالا مال ہے جیساکہ اللہ مُجِیْبُ الدَّعْوَات عَزَّوَجَلَّ کا پارہ 26 سُوْرَۃُ الْحُجُرٰتکی آیَت13میں فرمانِ عزّت نِشان ہے:
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-
ترجمۂ کنزالایمان:بے شک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزَّت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
بارگاہِ الہٰی کے مُقَرَّب اور پیارے دربارِ رِسالت کے چمکتے دمکتے ستارے ، سلطانِ دوجہاں صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آنکھو ں کے تارے ، دکھیاروں