عاشق اکبر

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  عاشقِ اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ  کی عشق ومَحَبّت بھری مُبارَک زندَگی سے ہمیں  یہ بھی درس ملتا ہے کہ ہماری آہیں  اور سسکیاں  دُنیا کی خاطر نہ ہوں  ، مَحَبّت ِدُنیا میں  آنسو نہ بہیں  ، دُنیوی جاہ وحشمت  (یعنی شان و شوکت) کے لئے سینے میں  کَسَک پیدانہ ہو بلکہ ہمارے دل کی حسرت، حُبِّ نبی ہو، آنسو یادِ مصطَفٰے میں  بہیں ، دُنیا کے دیوانے نہیں  بلکہ شمعِرِسالت کے پروانے بنیں ،اُنہی کی پسند پر اپنی پسند قربان کریں  اوریہی خواہِش ہو کہ کاش!  میرا مال، میری جان محبوبِ رحمن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی آن پر قربان ہو جائے، اُن سے نسبت رکھنے والی ہر چیز دلعزیز ہو، جو خوش بخت ایسی زندَگی گزارنے میں  کامیاب ہو گیاتو اللہُ تبارَک وتعالیٰ اُس کے لئے دُنیا مسخَّر اور مخلوق کو اُس کے تابع کر دے گا، آسمانوں  میں  اُس کے چرچے ہوں  گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خدا و مصطَفٰے کا محبوب بن جائے گا۔

وہ کہ اُس در کاہوا خلقِ خدا اُس کی ہوئی

وہ کہ اُس در سے پھر اللہ اُس سے پِھر گیا (حدائقِ بخشش شریف)

          لیکن اَفسوس!  صد اَفسوس!  آج کے مسلمانوں  کی اکثریت شاہِ اَبرار، دو عالَم کے مالِک ومُختار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اُسوۂ حَسَنہ کو اپنا مِعیار بنانے کے بجائے اغیار کے شِعاراور فیشن پر نثار ہوکر ذلیل و خوار ہوتی جارہی ہے۔  ؎

کون      ہے   تارِکِ   آئینِ   رسولِ    مُختار      مصلَحت، وقت کی ہے کس کے عمل کا مِعیار

کس کی آنکھوں  میں  سمایا ہے شِعارِ اَغیار            ہو گئی کس کی نِگہ طرزِ سلَف سے بیزار

قلْب میں سوز نہیں ، رُوح میں  اِحساس نہیں

کچھ بھی پیغامِ محمد کا تمہیں  پاس نہیں

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !                                                             صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد

تُوْبُوْا اِلَی اللہ                                 اَسْتَغْفِرُاللہ

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !                                 صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد

یہ کیسا عشق اور کیسی مَحَبّت ہے؟

            میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!   جولوگ اپنے والدین سے مَحَبَّت کرتے ہیں وہ اُن کا دل نہیں  دُکھاتے، جنہیں اپنے بچے سے مَحَبَّت ہوتی ہے وہ اُسے ناراض نہیں  ہونے دیتے،کوئی بھی اپنے دوست کو غم زدہ دیکھنا گوارا نہیں  کرتاکیونکہ جس سے مَحَبَّت ہوتی ہے اُسے رَنجیدہ نہیں  کیاجاتا مگر آہ! آج کے اکثر مسلمان جو کہ عشقِ رسول کے دعویدار ہیں  مگر اُن کے کام محبوبِ ر بُّ ا لانام صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو شاد کرنے والے نہیں  ، سنو! سنو!  رسولِ ذی وقار، دو عالَم کے تاجدار، شَہَنْشاہِ اَبرار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: ’’ جُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ یعنی میری آنکھوں  کی ٹھنڈک نماز میں  ہے۔ ‘‘   (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر ج۲۰ص۴۲۰حدیث۱۰۱۲) وہ کیسے عاشقِ رسول ہیں  جو کہ نماز سے جی چُرا کر، نماز جان بوجھ کرقضا کر کے سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے قلبِ پُراَنوار کے لئے تکلیف و آزار کاسبب بنتے ہیں۔یہ کون سیمَحَبَّت  اور کیسا عشق ہے کہ رسولِ رفیعُ الشان، مدینے کے سلطان صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ماہِ رَ مضان کے روزوں  کی تاکید فرمائیں  مگر خود کو عاشقانِ رسول میں  کھپانے والے اِس حُکمِ والا سے رُو گَردانی کر کے ناراضیٔ مصطَفٰے کاسبب بنیں ، حضورِ اکرمصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنمازِ تراویح کی تاکید فرمائیں  مگر سُست و غافل اُمّتیوں  سے نہ پڑھی جائے، پڑھیں  بھی تو رَسماً ماہِ رَمَضان کے ابتدائی چند دن اور پھر یہ سمجھ بیٹھیں  کہ پورے رمَضانُ المبارَک کی نمازِتراویح ادا ہو گئی۔پیارے مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمائیں :  ’’ مونچھیں  خوب پست  (یعنی چھوٹی)  کرو اور داڑھیوں  کو مُعافی دو  (یعنی بڑھاؤ)  یہودیوں  کی سی صورت نہ بناؤ۔ ‘‘   (شرح معانی الآثار للطحاوی ج۴ ص۲۸ دارالکتب العلمیۃ بیروت) مگر عشقِ رَسول کے دعوے دار مگر فیشن کے پرستار دُشمنانِ سرکارجیسا

Index