عاشق اکبر

پُردرد پر رکھ دیا جس سے میرا اِضطِرابِ قَلْبی  (یعنی دل کا بے قرارہونا)  دُور ہو گیا پھر فرمایا:  ’’ اے ابوبکر ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) !  مجھے تم سے ملنے کا بَہُت اِشتِیاق (یعنی خواہِش)  ہے، کیا ابھی وقت نہیں  آیا کہ تم میرے پاس آ جاؤ؟ ‘‘  میں  خواب میں  بَہُت رویا یہاں  تک کہ میرے اہلِ خانہ کو بھی میرے رونے کی خبر ہو گئی جنہوں  نے بیدار ہونے کے بعد مجھے خواب کی اِس گِریہ وزاری سے  مُطَّلَع کیا۔   (شواہد النبوۃ للجامی ص۱۹۹مکتبۃ الحقیقۃ ترکی)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !                                                                صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد

یومِ وفات اور کفن میں شوقِ مُوافَقَت

        دعوتِ اِسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مَطْبُوعہ 274صَفَحَات پر مُشْتَمِل کتاب  ’’  صحابۂ کِرام  کا عشقِ رسول  ‘‘   صَفْحَہ67پر منقول ہے:  حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہنے اپنی وفات سے چند گھنٹے پیشتر  (یعنی قبل) اپنی شہزادی حضرت سَیِّدَتُنَا عائِشہ صِدِّیقہرضی اللہ تعالٰی عنہا سے دَریافت کیا کہ رسولُ اللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے کفن میں  کتنے کپڑے تھے؟حُضور رحمتِ عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی وَفات شریف کس دن ہوئی؟ا ِس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آرزو تھی کہ کفَن ویومِ وَفات میں حُضُورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مُوافَقَت ہو، جس طرح حیات میں  حُضُور  سرورِ کائنات صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی اِتِّباع  (یعنی پیروی)  کی اِسی طرح مَمَات (یعنی وَفات)  میں  بھی ہو۔  (صَحیح بُخاری  حدیث۱۳۸۷، ج۱، ص۴۶۸دار الکتب العلمیۃ بیروت)

اللہُ اللہُ یہ شوقِ اِتّباع

کیوں  نہ ہو صِدِّیقِ اَکبر تھے

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !         صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد

صدِّیقِ اکبر کی وفات کا سبب غمِ مصَطَفٰے تھا

          سُبْحٰنَ اللہ عَزَّوَجَلَّ!  امیرُ المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صِدِّیقرضی اللہ تعالٰی عنہ عشقِ رسولِ باکمال و بے مثال کی دولتِ لازَوال سے کس قَدَر مالامال تھے، آ پ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے شب وروز کے اَحوا ل، بی بی آمِنہ کے لال، پیکرِ حسن وجمال صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے عشقِ بے مثال کا مَظْہَرِ اَتَمّ (یعنی کامِل ترین اِظہار)  ہیں۔ اُمِّی نبی، رسولِ ہاشِمی،مکّی مَدَنی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے وِصالِ ظاہِری کے بعد آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مبارَک زندَگی میں  سنجیدَگی زیادہ غالِب آ گئیاور  (تقریباً 2سا ل7 ماہ پر مشتمل )  اپنی بقِیّہ (بَ۔قِیْ۔یَہ)  زندَگی کے لیل ونَہار (یعنی دن رات)   گزارنااِنتِہائی دُشوار ہوگیا اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ یادِ سرکارِ نامدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  میں  بے قرار رہنے لگے،چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا امام جلالُ الدّین سُیُوطِی شافِعی علیہ ر حمۃ  اللہِ  القوی نَقل کرتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہبن عمررضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیق اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ  کی وفات کا اصل سبب سرورِ کائنات کی  ( ظاہِری)  وفات تھا کہ اِسی صدمے سے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مبارَک بدن گھلنے لگا اور یہی وفات کا باعث بنا۔     (  تارِیخُ الْخُلَفا ئص۶۲بتغیر)

مَر ہی جاؤں  میں  اگر اِس در سے جاؤں  دو قدم

کیا     بچّے   بیمارِ  غم قُرب مسیحا  چھوڑ  کر  (ذوقِ نعت)

مَریضِ مصطَفٰے

            حضرتِ سیِّدُنا امام عبدُ الرّحمٰن جلال ُ الدین سُیُوطِی شافِعی عَلَیہِ رَحمَۃُ اللہِ القَوِی  ’’ تَارِیْخُ الْخُلَفَاء ‘‘  میں  نقْل فرماتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہکے زمانۂ عَلَالت  (یعنی بیماری کے ایّام)  میں  لوگ عِیادَت کے لئے حاضِر ہوئے اور عرض کی: اے جانَشینِ رَسول رضی اللہ تعالٰی عنہ!  اِجازت ہو تو ہم آپ  کے لئے طبیب لائیں۔ فرمایا: طبیب نے تو مجھے دیکھ لیا ہے ۔ عرض کیا: طبیب نے کیا کہا؟ اِرشاد فرمایا کہ اُس نے فرمایا: ’’ اِنِّیْ فَعَّالٌ لِّمَا  اُرِیْدُ یعنیمیں  جو چاہتا ہوں  کرتا ہوں۔ ‘‘   (تارِیخُ الْخُلَفاء ص ۶۲) مُراد یہ تھی کہ حکیم اللہ  عَزَّوَجَلَّہے، اُس کی مرضی کو کوئی ٹال نہیں  سکتا، جو مَشِیّت  (یعنی مرضی)  ہے ضرور

Index