کے ٹوٹےدلوں کے سہارے حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سرورِ کائنات ،شَہَنشاہِ موجوادتصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہِری وفات کے موقع پرغمِ مصطَفیٰ میں بیقرار ہو کریہ اَشعارکہے:
لَمَّا رَاَیْتُ نَبِیَّنَا مُتَجَدَّلاً ضَاقَتْ عَلَیَّ بِعَرْضِھِنَّ الدُّوْر
فَارْتَاعَ قَلْبِیْ عِنْدَ ذَاکَ لِہُلْکِہٖ وَالْعَظْمُ مِنِّیْ مَا حَیِیْتُ کَسِیْر
یَا لَیْتَنِیْ مِنْ قَبْلِ مَھْلَکِ صَاحِبِیْ غَیَّبْتُ فِیْ جَدْثٍ عَلَی صُخُوْر
ترجمہ{1} جب میں نے اپنے نبیصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو وَفات یافْتہ دیکھا تو مکانات اپنی وُسعَت کے باوُجود مجھ پر تنگ ہوگئے{2} اِس وقت آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی وفات سے میرا دل لرز اٹھا اور زندَگی بھر میری ہڈّی شکستہ (یعنی ٹوٹی ہوئی) رہے گی{3}کاش! میں اپنے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اِنتِقال سے پہلے چٹانوں پر قبْر میں دَفن کردیا گیا ہوتا۔ (اَلْمَواہِبُ اللَّدُنِّیَّۃ لِلْقَسْطَلَّانِی ج۳ص۳۹۴دار الکتب العلمیۃ بیروت)
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ المنان ’’ دیوانِ سالک ‘‘ میں غمِ مصطَفٰے میں اس طرح کے جذبات کا اِظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
جنہیں خَلْق کہتی ہے مصطفی ،مراد ل اُنہیں پہ نثار ہے مِرے قلب میں ہیں وہ جلوہ گرکہ مدینہ جن کا دِیار ہے
وہ جھلک دکھا کے چلے گئے مِرے دل کا چین بھی لے گئے مِری روح ساتھ نہ کیوں گئی ،مجھے اب تو زندَگی بار ہے
وُہی موت ہے وُہی زندگی ،جوخدا نصیب کرے مجھے کہ مَرے تو اُن ہی کے نام پر،جو جیئے تو اُن پہ نِثار ہے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
کاش ! ہمیں بھی غمِ مصطَفٰے نصیب ہو
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عاشقِ شاہِ بحرو بر، راہِ عشق ومَحبَّت کے رہبر،عاشقِ اکبر حضرتِ سیِّدُنا صِدّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی اُلفت وعقیدت کا اشعار میں کس قَدَر سوز و رِقّت کے ساتھ اِظہار فرمایا ہے، کاش! سرورِ کائنات کے وزیر ودلبرحضرتِ سیِّدُناصِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے غمِ مصطَفٰے میں بہنے والے پاکیزہ آنسوؤں کے صدقے ہمیں بھی غمِ مصطَفٰے میں رونے والی آنکھیں نصیب ہو جائیں۔
ہجرِ رسول میں ہمیں یا ربِّ مصطفی
اے کاش! پھُوٹ پھُوٹ کے رونا نصیب ہو (وسائلِ بخشش)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
عارِف بِاللہحضرت علّامہ امام عبدالرحمٰن جامی قُدِّسَ سرُّہُ السّامی نے اپنی مشہور کتاب ’’ شَواہِدُ النُّبُوّۃ ‘‘ میں یارِ غار و یارِ مزار، عاشقِ شَہَنْشاہِ ابرار خلیفۂ اوّل حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مبارَک زندگی کے آخِری ایّام کاایک ایمان افروز خواب نَقل کیا ہے اُس کا کچھ حصّہ بیان کیا جاتا ہے چُنانچِہ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : ایک دَفعہ رات کے آخِری حصّے میں مجھے خواب کے اندر دیدارِ مصطَفٰے کی سعادت نصیب ہوئی، آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے دو سفید کپڑے زیبِ بدن فرما رکھے تھے اور میں اِن کپڑوں کے دونوں کَناروں کو ملا رہا تھا، اچانک وہ دونوں کپڑے سبز ہونا اور چمکنا شروع ہو گئے، اُن کی دَرَخشانی وتابانی (یعنی چمک دمک ) آنکھوں کو خِیرہ (یعنی چکا چوند) کرنے والی تھی، حضورِ پُرنورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے ’’ اَلسَّلامُ عَلَیْکُم ‘‘ کہہ کرمُصافَحہ (یعنی ہاتھ ملانے) سے مشرَّف فرمایا اور اپنا دستِ مقدَّس میرے سینۂ