ہوگا۔یہ حضرت صدِّیق اکبر کاتَوَکلُِّ صادِق تھا اور رِضائے حق پر راضی تھے۔ (سوانح کربلا ص۴۸مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)
میں مریضِ مصطفی ہوں مجھے چھیڑو نہ طبیبو!
مِری زندَگی جو چاہو مجھے لے چلو مدینہ
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! عاشقِساقی ٔ کوثر، امیرُالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر واقِعی محبوبِ ربِّ اَکبرصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے عاشقِ اَکبر ہیں۔ غمِ ہجرِ مصطَفٰے و عشقِ رسولِ مجتبیٰ میں بیمار ہوجانا آپ کے ’’ عاشقِ اَکبر ‘‘ ہونے کی دلیل ہے۔ دل کی کُڑَھن اور جَلَن کا سبب صرف محبوبِ ربُّ العِبادصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی یاد اور اُن کا فِراق تھا اور ایک ہم ہیں کہ ہمارا دل دُنیاکیمَحَبّت ، عارضی حُسن وجمال اور چند روزہ جاہ وجَلال ہی کا شیدا ہے اور اسی کے لئے تڑپتا، ترَستا اور نفسانی خواہشات پوری نہ ہونے پر حَسرت ویاس سے آہیں بھرتا ہے۔
دل مِرا دنیا پہ شیدا ہو گیا اے مرے اللہ یہ کیا ہو گیا
کچھ مرے بچنے کی صورت کیجئے اب تو جو ہونا تھا مولیٰ ہو گیا
عیب پوشِ خلق دامن سے ترے
سب گنہگاروں کا پردہ ہو گیا (ذوقِ نعت )
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
سیِّدُناصدِّیق اَکبر کو زَہر دیا گیا
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وصالِ ظاہری کے اسباب مختلف بتائے جاتے ہیں ، بعض روایات کے مطابِق غارِ ثور والے سانپ کے زَہر کے اثر کے عَود کرنے ( یعنی لوٹ کر آجانے) کے سبب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وفات ہو گئی۔ ایک سبب یہ بتایا گیا کہ غمِ مصَطفٰے میں گُھل گُھل کر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جان دیدی جبکہ ابنِ سعد و حاکِم نے ابنِ شَہاب سے روایت کی ہے کہ ( سیِّدُنا صدِّیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہکی وفات کا ظاہِری سبب یہ تھا کہ) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس کسی نے تحفۃً خُزَیْرہ (یعنی قیمے والادلیہ ) بھیجا تھا، آپ اور حارِث بن کَلَدَہ دونوں کھانے میں شریک تھے (کچھ کھانے کے بعد) حارِث نے (جو کہ طبیب تھا) عرض کی: اے خلیفۂ رسولُ اللہ ! ہاتھ روک لیجئے (اور اسے نہ کھایئے) کہ اس میں زَہر ہے اور یہ وہ زَہر ہے جس کا اثر ایک سال میں ظاہِر ہوتا ہے، آ پ رضی اللہ تعالٰی عنہ دیکھ لیجئے گا کہ ایک سال کے اندر اندر میں اور آپ ایک ہی دن فوت ہوں گے ۔یہ سُن کر آ پ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا لیکن زَہر اپنا کام کر چکا تھا اور یہ دونوں اِسی دن سے بیمار رہنے لگے اور ایک سال گزرنے کے بعد ( اُسی زَہرکے اثر سے) ایک ہی دن میں انتقال کیا۔ (تارِیخُ الْخُلَفاء ص۶۲)
حاکِم کی یہ روایت شَعَبی سے ہے کہ انہوں نے کہا :اِس دنیائے دُوں (یعنی ذلیل دنیا) سے ہم بھلا کیا توقُّع رکھیں کہ (اِس میں تو) رسولِ خدا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی زَہر دیا گیا اور حضرتِ سیِّدُنا صِدّیق اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہکو بھی۔ (اَیضاً) ان اقوال میں تعارُض (یعنی ٹکراؤ)