عاشق اکبر

       بروزِ قِیامت فکرِ امَّت کا انداز 

           حضرتِ ابنِ عبّاس  رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے،حُضور شاہِ خیرُالْاَنام صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : قِیامت کے دن تمام انبیاءِ کرام  (عَلَیْہِم الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام )  سونے کے منبروں  پر جلوہ گر ہوں گے ،میرا منبر خالی ہو گا کیوں  کہ میں  اپنے رب کے حُضُور خاموش کھڑا ہوں  گا کہ کہیں  ایسا نہ ہو اللہُ مجھے جنَّت میں جانے کا حکم فرما دے اور میری اُمّت میرے بعد پریشان پھرتی رہے۔ اللہُ تعالیٰ فرمائے گا:اے محبوب!  تیری اُمّت کے بارے میں  وُہی فیصلہ کروں  گا جو تیری چاہت ہے ۔ میں  عرض کروں گا : اللھُمَّ عَجِّلْ حِسَابَھُمْ یعنی اے  اللہُ ! ان کا حساب جلدی لے لے  ( کہ میں  ان کو ساتھ لے کر جانا چاہتا ہوں )  یہ مسلسل عرض کرتا رہوں  گا یہاں  تک کہ مجھے دوزخ میں  جانے والے میرے اُمّتیوں  کی فہرست دے دی جائے گی  ( جو جہنَّم میں  داخِل ہو چکے ہوں  گے ان کی شَفاعت کر کے میں  انہیں  نکالتا جاؤں  گا) یوں  عذابِ الہٰی کے لیے میری اُمّت کا کوئی فرد نہ بچے گا۔(کَنْزُ الْعُمّالج۷ ص۱۴ رقم۳۹۱۱۱دارالکتب العلمیۃ بیروت)  

اللہُ !  کیا جہنَّم اب بھی نہ سرد ہو گا

رو رو کے مصطَفٰے نے دریا بہا دیئے ہیں

                 اے عاشقانِ رسول! امَّت کے غمخوار آقا کے قدموں  پرنثار ہو جایئے اور زندگی ان کی غلامی بلکہ ان کے غلاموں  کی غلامی اور دعوتِ اسلامی اور اس کے مَدَنی قافِلوں

کے اندر سفر میں  گزار کر مرنے کے بعد ان کی شَفاعت کے حق دار ہو جایئے اوراپنا منہ بروزِ قِیامت نبیِّ رحمت ،شفیعِ امَّتصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کودکھانے کے قابِل بنا لیجئے یعنی یہودو نصاریٰ کی سی شکل و صورت بنانی چھوڑ دیجئے ،اپنے چہرے پر ایک مٹّھی داڑھی سجا لیجئے،انگریزی بالوں  کے بجائے زلفیں  رکھ لیجئے اور ننگے سر گھومنے کے بجائے سبز عمامہ شریف کے ذَرِیعے اپنا سر  ’’  سر سبز ‘‘  کر لیجئے۔بس اپنے ظاہر و باطن پر مَدَنی رنگ چڑھا لیجئے۔

ڈر تھا کہ عصیاں  کی سزا اب ہو گی یا روزِ جزا

دی اُن کی رَحمت نے صدا یہ بھی نہیں  وہ بھی نہیں

              میرے آقا اعلٰیحضرت، اِمامِ اَہلسنّت،ولیِّ نِعمت،عظیمُ البَرَکت، عظیمُ المَرْتَبت، پروانۂِ شمعِ رِسا لت،مُجَدِّدِ دین ومِلَّت، حامیِّ سنّت، ماحِیِٔ بِدعت، عالِمِ شَرِیْعَت ، پیرِ طریقت، باعِثِ خَیْر وبَرَکت، حضرتِ علّامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیہِ رَحمَۃُ الرَّحمٰن  ہمیں  سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں :

جو نہ بھولا ہم غریبوں  کو رضاؔ

یاد  اُس  کی  اپنی  عادت  کیجئے

کاش!  ہم پکّے عاشقِ رسول بن جائیں  

            حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ کے قدموں  کی دُھول کے صدقے  کاش!  ہم بھی سچّے اور پکّے عاشقِ رسول بن جائیں۔ کاش!  ہمارا اُٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا، سوناجاگنا،لینا دینا،جینا مرنا میٹھے میٹھے آقا، مدینے والے مصطَفٰیصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی سُنَّتوں  کے مطابِق ہو جائے ۔ اے کاش!

فَنا اِتنا تو ہو جاؤں  میں  تیری ذاتِ عالی میں

جو مجھ کو دیکھ لے اُس کو ترا دیدار ہو جائے

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  اپنے اندر عشقِ حقیقی کی شمع روشن کیجئے،اِنْ شَائَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ظاہر وباطن مُنَوَّر ہو جائے گا اور دُنیا و آخِرت میں  سُرخرُوئی قدم چومے گی۔

خوار جہاں  میں  کبھی ہو نہیں  سکتی وہ قوم

 

Index