مال نے دیا۔ ‘‘ بارگاہِ نُبُوّت سے یہ بِشارت سُن کر حضرتِ سیِّدُناابوبکر (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) رو دئیے اور عَرض کی: یا رسولَ اللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میرے اورمیرے مال کے مالِک آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمہی تو ہیں۔ (سُنَنِ اِبن ماجہ ج۱ ص۷۲ حدیث ۹۴ دارالمعرفۃ بیروت)
وُہی آنکھ اُن کا جو منہ تکے، وُہی لب کہ مَحو ہوں نَعت کے
وُہی سَر جو اُن کے لئے جُھکے، وُہی دل جو اُن پہ نِثار ہے (حدائق بخشِش شریف)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس روایَتِ مبارَکہ سے معلوم ہواکہ حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مبارَک عقیدہ بھی یہی تھا کہ ہم محبوبِ ربُّ الانامعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے غلام ہیں اورغلام کے تمام مال ومَنال کا مالِک اُس کا آقا ہی ہوتاہے، ہم غلاموں کا تو اپناہے ہی کیا؟
کیا پیش کریں جاناں کیا چیز ہماری ہے
یہ دل بھی تمہار ا ہے یہ جاں بھی تمہاری ہے
اِبتِدائے اِسلام میں جو شخص مسلمان ہوتا وہ اپنے اِسلام کو حَتَّی الْوَسْع (جہاں تک مکن ہوتا) مَخفی رکھتا کہ حُضُورِ اَکرم، نورِ مُجَسَّم ،غم خوارِاُمَمصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی طرف سے بھی یہی حُکم تھاتاکہ کافِروں کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف اور نُقصان سے محفوظ رہیں۔ جب مسلما ن مردوں کی تعداد 38 ہو گئی تو حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیق اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہنے بارگاہِ رسولِ انورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّممیں عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ابعَلَی الاعلان تبلیغِ اِسلام کی اِجازت عِنایَت فرما دیجئے ۔ دو عالم کے مالِک ومختار،شفیعِ روزِ شمار، اُمّت کے غم خوارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اوّلاً اِنکار فرمایا مگر پھر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہکے اِصرارپر اِجازت عنایت فرما دی۔ چُنانچِہ سب مسلمانوں کو لے کر مسجدُالحرام شریف زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں تشریف لے گئے اورخطیبِ اوّل حضر تِ سیِّدُنا صِدّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خطبہ کا آغاز کیا، خطبہ شروع ہوتے ہی کُفّار ومُشرکین چاروں طرف سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ۔ مکۂ مکرمہ زَادَھَااللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عَظَمَت و شَرافت مُسَلَّم تھی، اِس کے باوُجُود کُفّارِ بداَطوار نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ پر بھی اِس قدرخونی وار کئے کہ چہرۂ مُبارَک لَہولُہان ہوگیا حتّٰی کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ بے ہوش ہوگئے۔ جب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہکے قبیلے کے لوگوں کو خبر ہوئی تووہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو وہاں سے اُٹھا کر لائے۔ لوگوں نے گُمان کیا کہ حضرتِ سیِّدُناصِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ زندہ نہ بچ سکیں گے۔ شام کو جب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اِفاقہ ہوا اور ہوش میں آئے تو سب سے پہلے یہ اَلفاظ زبانِ صداقت نشان پر جاری ہوئے: محبوبِ ربّ ِذُوالجَلال صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کیا حال ہے؟ لوگوں کی طرف سے اِس پر بَہُت مَلامت ہوئی کہ اُن کا ساتھ دینے کی وجہ سے ہی یہ مصیبت آئی، پھر بھی اُنہی کا نام لے رہے ہو۔
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی والدہ ٔ ماجِدہ اُمُّ الْخَیرکھانا لے آئیں مگر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہکی ایک ہی صد ا تھی کہ شاہِ خوش خِصال،پیکر ِحُسن وجمال صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کیا حال ہے؟ والِدۂ محترمہ نے لاعلمی کا اِظہار کیا تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہنے فرمایا :اُمِّ جمیل رضی اللہ تعالٰی عنہا (حضرتِ سیِّدُنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بہن) سے دَ ریافت کیجئے، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی والدۂ ماجِدہ اپنے لختِ جگر کی اِس مظلومانہ حالت میں کی گئی بیتا بانہ درخواست پوری کرنے کے لئے حضر تِ سیِّدَتُنا اُمِّ جمیلرضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس گئیں اورسرورِ معصوم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حال معلوم کیا۔ و ہ بھی نامُساعِد حالات کے سبب اُس وقت اپنا اِسلام چھپائے ہوئے تھیں اور چُونکہاُمُّ الْخَیرابھی تک مسلمان نہ ہوئی تھیں لہٰذا انجان بنتے ہوئے فرمانے لگیں : میں کیا جانوں کون محمد (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) اور کون ابوبکر (رضی اللہ تعالٰی عنہ) ۔ہاں آپ کے بیٹے کی حالت سُن کر رَنج ہوا، اگر آپ کہیں تو میں چل