عاشق اکبر

کر اُن کی حالت دیکھ لوں۔اُمُّ الْخَیر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کواپنے گھرلے آئیں  ۔ انہوں  نے جب حضر تِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حالتِ زار دیکھی تو تَحَمُّل (یعنی برداشت)   نہ کر سکیں ، رونا شروع کر دیا ۔ حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہنے پوچھا:میرے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی خیر خبر دیجئے۔ حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ جمیلرضی اللہ تعالٰی عنہا نے والِدۂ صاحِبہ کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے توجُّہ دِلائی۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ اِن سے خوف نہ کیجئے،تب اُنہوں  نے عرض کی:نبیِّ رحمتصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی عنایت سے بخیروعافیت ہیں  اوردارِاَرقم یعنی حضرتِ سیِّدُنا اَرقم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھر تشریف فرما ہیں۔آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے فرمایا: خد اعَزَّوَجَلَّ کی قسم !  میں اُس وقت تک کوئی چیز کھاؤں  گا نہ پیوں  گا، جب تک شَہَنْشاہِ نُبُوّت، سراپا خیرو بَرَکَت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارَت کی سعادت حاصِل نہ کر لوں  ۔چُنانچِہ والدۂ ماجِدہ رات کے آخِری حصے میں  آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  کو لے کر حضورتاجدارِ رسالت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمتِ بابَرَکت میں  دارِ اَرقم حاضِر ہوئیں۔  عاشقِ اَکبر حضرت ِسیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہحضورِ انورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمسے لپٹ کر رونے لگے ، آقائے غمگُسارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اوروہاں موجود دیگر مسلمانوں  پربھی گِریہ  (یعنی رونا)  طاری ہو گیا کہ سیِّدُناصِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہکی حالتِ زار دیکھی نہ جاتی تھی۔ پھرآپ رضی اللہ تعالٰی عنہنے مصطَفٰے جانِ رَحمت، شمعِ بزمِ ہِدایت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمسے عرض کی :یہ میری والِدۂ ماجِدہ ہیں ، آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِن کے لئے ہِدایت کی دُعا کیجئے اور اِنہیں  دعوتِ اِسلام دیجئے۔ شاہِ خیرُ الانام عَلَیہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالسَّلام نے اُن کو اِسلام کی دعوت دی، اَلْحَمْدُ لِلّٰہعَزَّوَجَلَّ!  وہ اُسی وقت مسلمان ہو گئیں۔  (البدایۃ والنہایۃج۲ص۳۶۹۔۳۷۰  دارالفکربیروت)

جسے مل گیا غمِ مصطَفٰے،             اُسے زندَگی کا مَزہ ملا

کبھی سَیلِ اَشک رَواں  ہوا، کبھی             ’’ آہ ‘‘  دِل میں  دَبی رہی  (وسائلِ بخشش)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !                                 صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد

راہِِ خُدا میں  مُشکِلات پر صَبْر

        میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!  دینِ اِسلام کی اِشاعت و تَرویج کے لئے کس قدَر مَصائب وآلام برداشت کئے گئے، اسلام کے عظیم مبلغین نے تَن من دَھن سب راہِ خدا  میں  قربان کر دیا ! آج بھی اگر مَدَنی قافلے میں  سفر پر جاتے، اِنفرادی کوشِش فرماتے ، سنّتیں  سیکھتے سکھاتے یا  سُنَّتوں   پر عَمَل کرتے کراتے ہوئے اگر مشکلات کا سامنا ہو تو ہمیں  عاشقِ اکبر سیِّدُنا صدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حالات و واقِعات کو پیشِ نظر رکھ کر اپنے لئے تسلِّی کا سامان مُہَیّا کر کے مَدَنی کام مزید تیز کر دینا چاہئے اور دِین کے لئے تَن مَن دَھن نثار کر دینے کا جذبہ اپنے اندر اُجاگر کرنا چاہئے جیسا کہ عاشقِ اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ آخِری دم تک اِخلاص اور اِستِقامت کے ساتھ دینِ اِسلام کی خدمت سَراَنجام دیتے رہے، راہِ خدا میں  جان کی بازی لگا دی مگر پائے اِستِقلال میں  ذرّہ بَرابَر بھی لغزِش نہ آئی،  دینِ اِسلام قبول کرنے کی پاداش میں  جوصَحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوان مظلومانہ زندَگی بَسَر کر رہے تھے آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہنے اُن کے لئے رَحمت وشفقت کے دریابہا دیئے۔اور  بارگاہِ ربُّ العُلٰی عَزَّوَجَلَّ سے آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہنے صاحِبِ تقویٰ کا لقب پایا اور خدمتِ دِینِ خُدااور اُلفتِ مصطَفٰے میں  مال خرچ کرنے پر سلطانِ دوجہاں ، رحمتِ عالمیانصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے بھی آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی تعریف وتَوصِیف بَیان فرمائی ۔

سات غلام خرید کر آزاد کئے

 

Index