وباطن میں ان کی پرواہ نہ کرنے جیسے حالات نے مجھے اس کا م پر آمادہ کیا کہ میں ایک ایسی کتاب تالیف کروں ، جوکہ ان تمام اُمور پر مشتمل ہو جو میرا مقصود ہیں اور اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے چاہا تو یہ کتاب گناہوں سے روکنے کاایک بہت بڑا سبب اور زبردست نصیحت ثابت ہوگی، کیونکہ لوگ زمانہ پرست، لہو ولعب کے پجاری اور اَحکام الٰہیہ عَزَّ وَجَلَّ کواس قدر فراموش کرچکے ہیں کہ ان پر فسق و فجور کی باتیں غالب آ گئی ہیں ، نیزوہ ہمیشگی کے گھر سے منہ موڑ کراور دھوکہ و فریب میں مبتلا ہو کرشہوات اور نافرمانیوں کی سرزمین کے باسی بن چکے ہیں ، یہاں تک کہ انہیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر اور اس کی گرفت کی بھی کوئی پرواہ نہیں رہی حالانکہ وہ جانتے نہیں کہ ان کو اتنی ڈھیل محض اس وجہ سے دی جا رہی ہے کہ وہ اپنی انہی نافرمانیوں کے باعث اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے قہر وغضب کے حقدار بنیں ۔ اسی لئے میں نے اپنی اس کتاب کا نام ’’ اَلزَّوَاجِر عَنِ اقْتِرَافِ الْکَبَآئِر ‘‘ رکھا ، اور مجھے اُمید ہے کہ اگر یہ کتاب میری بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق مکمل ہوگئی تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے ذریعے شہری اوردیہاتی ہر شخص کو نفع بخشے گا اور اسے ظاہری وباطنی پاکیزگی کا سبب بنا دے گا۔
میرا بھروسہ اسی پر ہے اور وہ کیاہی اچھا کارساز ہے، میں ہر چھوٹی بڑی مشکل میں اسی سے فریاد کرتا ہوں اور نیکی کی توفیق اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی کی طرف سے ہے، میں اسی پر بھروسہ کرتاہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔
مَیں نے اپنی اس کتاب کو جو ترتیب دی ہے وہ ایک مقدمہ، دو ابواب اورایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔
مقدمہ میں کبیرہ اور وہ گناہ جن کا عام طور پر لوگ اِرتکاب کرتے ہیں کی تعریف، ان کی تعداد اور ان کے متعلقات مذکور ہیں ۔
پہلا باب ان کبائرپر مشتمل ہے جن کا تعلق باطن اوراس کے اُن تو ابع سے ہے جو ابواب فقہ سے مناسبت نہیں رکھتے۔
دوسرا باب ان کبائر پر مشتمل ہے جن کاتعلق ظاہر سے ہے اور مَیں انہیں اپنی فقہ شافعیہ کی ترتیب کے مطابق مرتب کروں گاتا کہ محل کے مطابق اسے سمجھنے میں آسانی ہو، البتہ ان میں سے ہر ایک کو ذکرکرتے وقت برائی اور بدی کے لحاظ سے اس کے مراتب کی تفصیل کی طرف ایسے اشارے دوں گا، جو ان کی طرف رہنمائی کے ساتھ ساتھ ان پر دلالت بھی کریں گے۔
خاتمہ توبہ کے فضائل پر مشتمل ہے جبکہ توبہ کی شرائط اور اس کے متعلقات اسی طرح ’’ باب الشھادات ‘‘ میں ذکر کروں گا جس طرح فقہاء کرام رَحِمَہُمُ اللہ تَعَالٰیاسے ’’ باب الشھادات ‘‘ میں ذکر کرتے ہیں ۔پھرجہنم ، اس کی صفات اور اس کے مختلف عذابوں کا تذکرہ ہو گا۔ نیز جنت ،اس کے اوصاف اوراس میں شامل مختلف اِنعامات اور نعمتو ں کا تذکرہ بھی ہوگا، تا کہ یہ مشیٔتِ الہٰی عَزَّ وَجَلَّ کے مطابق جہنم کی طرف لے جانے والے کبیرہ گناہوں سے روکنے کا زبردست داعی بن جائے اور اس طرح گناہوں سے رُک جانا ہمیشہ کی نعمتیں پا لینے میں کامیابی کا سبب اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے حصول کا با عث بن جائے ۔
یقینا یہی سب سے بڑی کامیابی ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں اس کااہل بنائے اور ہم پر ہمیشہ اپنے جُودو کرم کی بارش برساتا رہے اور ہمارا خاتمہ اچھافرمائے اور ہمیں اپنے فضل سے اَرفع واعلیٰ مقام تک پہنچائے، بیشک وہ ہر چیز پر قادر اورہر دعاقبول فرمانے والا ہے۔ (اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم)
٭…٭…٭…٭…٭…٭
گناہ کبیرہ کی تعریف، تعداد اوردیگر متعلقات
اَئمہ کرام رَحِمَہُمُ اللہ تَعَالٰی کی ایک جماعت نے کسی بھی گناہ کے صغیرہ ہونے کا انکار کیا اور ارشاد فرمایا: ’’ تمام گناہ، کبیرہ ہی ہیں ۔ ‘‘ ان اَئمہ کرام رَحِمَہُمُ اللہ تَعَالٰی میں اُستاذ ابو اسحاق اسفرا ینی ، قاضی ابو بکر باقلانی بھی شامل ہیں ، جبکہ امام الحرمین علیہ رحمۃ الرحمن نے اس بات کو ’’ الارشاد ‘‘ میں اور علامہ ابن قشیری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ’’ المرشد ‘‘ میں نقل کیا ہے بلکہ علامہ ابن فورک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس قول کو اشاعرہ سے نقل کرکے اپنی تفسیر میں مختار مذہب کے طور پر ذکر کیا ہے۔چنانچہ،
آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : ’’ ہمارے نزدیک اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ہر نافرمانی گناہ کبیرہ ہے اور کسی گناہ کو صغیرہ یاکبیرہ صرف اُس سے بڑے دوسرے گناہ کی طرف نسبت کے اعتبار سے کہا جاتاہے۔ ‘‘ پھر آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہنے اس آیت مبارکہ:
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ (پ ۵ ،النسآء: ۳۱)
ترجمۂ کنزالایمان: اگر بچتے رہو کبیرہ گناہوں سے جن کی تمہیں ممانعت ہے۔
میں یہ تاویل بیان کی کہ اس سے مراد اس کا ظاہری معنی ہے۔
معتزلہ کہتے ہیں : ’’ گناہوں کو دو انواع یعنی صغیرہ اور کبیرہ میں تقسیم کرنا صحیح نہیں ۔ ‘‘
بعض اوقات علامہ ابن فورک رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہکی اسی بات پراصحاب مذہب کے اتفاق کا دعوی بھی کیاگیا اور بعض علماء جیسے امام تقی الدین سبکی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہنے بھی اسی پر اعتماد کیاہے۔
قاضی عبد الوہاب رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : ’’ کسی گناہ کوصغیرہ کہنا اسی صورت میں ممکن ہے جب اس معنی کے اعتبار سے کہاجائے کہ یہ گناہ، کبیرہ گناہوں سے اجتناب کی صورت میں صغیرہ ہوتا ہے ۔ ‘‘
یہ قول حضرت سیدنا ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہمَا کی اس روایت کے موافق ہے جسے امام طبرانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے روایت کیا ہے مگریہ روایت منقطع ہے ۔ (یعنی وہ حدیث جس کے ایک یا زیادہ راوی سا قط ہوں )
چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : ’’ حضرت سیدنا ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے سامنے کبیرہ گناہوں کا تذکرہ کیا گیا تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ ہر وہ عمل جسے کرنے سے منع کیا گیا ہے وہ کبیرہ ہے۔ ‘‘
اورانہی سے یہ بھی مروی ہے : ’’ ہر وہ عمل جس میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمانی کی جائے گناہ کبیرہ ہے ۔ ‘‘