مندی، اے سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والے ۔
"خلیل"کے چار حروف کی نسبت سے مقام ابراہیم پر نماز کے چار مدنی پھول
{۱}فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : ’’جو مقامِ ابراہیم کے پیچھے دو رَکْعَتیں پڑھے ، اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے اور قِیامت کے دن اَمْن والوں میں مَحشور ہوگا (یعنی اٹھایا جائیگا) ۔ ‘‘ (الشفا ، الجزء الثانی ص۹۳ ){۲} اکثر لوگ بھیڑ بھاڑ میں گرتے پڑتے بھی زبردستی’’ مقامِ ابراھیم ‘‘کے پیچھے ہی نَماز پڑھتے ہیں ، بعض حضرات مستورات کونَماز پڑھانے کیلئے ہاتھوں کا حلقہ بنا کر راستہ گھیر لیتے ہیں انہیں اِس طرح کرنے کے بجائے بھیڑ کے موقع پر ’’ نمازِ طواف ‘‘ مقامِ ابراھیم سے دُور پڑھنی چاہئے کہ طواف کرنے والوں کو بھی تکلیف نہ ہو اورخود کو بھی دھکّے نہ لگیں {۳}مقامِ ابراہیم کے بعد اِس نَمازکے لیے سب سے افضل کعبۂ معظمہ کے اند ر پڑھنا ہے پھرحَطیممیں میزابِ رحمت کے نیچے اس کے بعدحَطیم میں کسی اور جگہ پھر کعبۂ معظمہ سے قریب تر جگہ میں پھر مسجدُالحرام میں کسی جگہ پھر حَرَمِ مکّہ کے اندر جہاں بھی ہو ۔ ( لُبابُ الْمَناسِکص ۱۵۶){۴} سنّت یہ ہے کہ وقتِ کراہت نہ ہو تو طواف کے بعد فوراً نَماز پڑھے ، بیچ میں فاصلہ نہ ہو اور اگر نہ پڑھی تو عمر بھر میں جب پڑھے گا ، ادا ہی ہے قضا نہیں مگر بُرا کیا کہ سنّتفوت ہوئی ۔ (اَلْمَسْلَکُ الْمُتَقَسِّطص ۱۵۵ )
نَمازِ طواف ودُعاسے فارِغ ہوکر(مُلْتَزَمکی حاضِری مُستحَب ہے ) مُلْتَزَمسے لپٹ جائیے ۔ دروازۂ کعبہ اور حَجَرِاَسوَد کے دَرمِیانی حصَّے کو مُلْتَزَم کہتے ہیں ، اِس میں دروازۂ کعبہ شامل نہیں ۔ مُلْتَزَم سے کبھی سینہ لگائیے تو کبھی پیٹ، اِس پر کبھی دایاں رُخسار تو کبھی بایاں رُخسار اور دونوں ہاتھ سَر سے اُونچے کر کے دیوار ِمقدَّس پر پھیلائیے یا سیدھا ہاتھ دروازۂ کعبہ کی طرف اور اُلٹا ہاتھ حَجَرِاَسوَد کی طرف پھیلا ئیے ۔ خوب آنسو بہائیے اورنہایت ہی عاجِزی کے ساتھ گڑگڑا کر اپنے پاک پَرْوَرْدَگار عَزَّ وَجَلَّ سے اپنے لئے اور تمام اُمَّت کے لئے اپنی زَبان میں دُعا مانگئے کہ مَقامِ قَبول ہے ۔ یہاں کی ایک دُعا یہ ہے :
یَا وَاجِدُ یَا مَاجِدُ لَا تُزِلْ عَنِّیْ نِعْمَۃً اَنْعَمْتَھَا عَلَیَّ ط
اے قدرت والے ! اے بزرگ! تو نے مجھے جو نعمت دی، اس کو مجھ سے زائل نہ کر ۔ حدیث میں فرمایا : ’’جب میں چاہتا ہوں جبریل کو دیکھتا ہوں کہ مُلتَزَم سے لپٹے ہوئے یہ دعا کر رہے ہیں ۔ ‘‘ (ابن عَساکر ج۵۱ص۱۶۴)اورہو سکے تو دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعا بھی پڑھئے :
اَللّٰھُمَّ یَا رَبَّ الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ اَعْتِقْ رِقَابَنَا وَ رِقَابَ اٰبَآئِنَا وَ اُمَّھَاتِنَا وَ اِخْوَانِنَا وَ اَوْلَادِنَا مِنَ النَّارِ یَا ذَا الْجُوْدِ وَالْکَرَمِ وَ الْفَضْلِ وَ الْمَنِّ وَ الْعَطَآءِ وَ الْاِحْسَانِ ط اَللّٰھُمَّ اَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الْاُمُوْرِ کُلِّھَا وَاَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْاٰخِرَۃِ ط اَللّٰھُمَّ اِنِّیْۤ عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَ اقِفٌ تَحْتَ بَابِكَ مُلْتَزِمٌ بِاَعْتَابِكَ مُتَذَلِّلٌۢ بَیْنَ یَدَیْكَ اَرْجُوْ رَحْمَتَكَ وَ اَخْشٰی عَذَابَكَ مِنَ النَّارِ یَا قَدِیْمَ الْاِحْسَانِ ط اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ اَسْئَلُكَ اَنْ تَرْفَعَ ذِکْرِیْ وَ تَضَعَ وِزْرِیْ وَتُصْلِحَ اَمْرِیْ وَ تُطَھِّرَ قَلْبِیْ وَ تُنَوِّرَ لِیْ فِیْ قَبْرِیْ وَ تَغْفِرَ لِیْ ذَنْۢبِیْ وَاَسْئَلُكَ الدَّرَجَاتِ الْعُلٰی مِنَ الْجَنَّۃِ ط اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم
اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!اے اِس قدیم گھر کے مالک !ہماری گردنوں کو اور ہمارے (مسلمان) باپ دادوں اور ماؤں (بہنوں )اور بھائیوں اور اولاد کی گردنوں کو دوزخ سے آزاد کردے ، اے بخشش اور کرم اور فضل اور اِحسان اورعطاوالے ! اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! تمام مُعامَلات میں ہمارا انجام بخیر فرما اورہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ ۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں تیرا بندہ ہوں اوربندہ زادہ ہوں ، تیرے (مقدس گھر کے ) دروازے کے نیچے کھڑاہوں ، تیرے دروازے کی چوکھٹو ں سے لپٹا ہوں ، تیرے سامنے عاجِزی کااظہار کر رہاہوں اور تیری رحمت کا طلب گار ہوں اورتیرے دوزخ کے عذاب سے ڈر رہاہوں اے ہمیشہ کے محسن !(اب بھی احسان فرما)اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں تجھ سے سُوال کرتا ہوں کہ میرے ذکر کو بلند ی عطا فرما اور میرے گناہوں کا بوجھ ہلکا کر اور میرے کاموں کو دُرُست فرما اور میرے دل کو پاک کر اور میرے لئے قبر میں رو شنی فرما اور میرے گناہ مُعاف فرما اور میں تجھ سے جنَّت کے اونچے دَرَجوں کی بھیک مانگتا ہوں ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ۔
مُلتَزَمکے پاس نَمازِ طواف کے بعد آنا اُس طواف میں ہے جس کے بعد سَعْی ہے اور جس کے بعد سَعْی نہ ہو مَثَلاً طوافِ نفل یا طوافُ الزِّیارَۃ (جب کہ حج کی سَعْی سے پہلے فارِغ ہوچکے ہوں ) اُس میں نَماز سے پہلے مُلتَزَمسے لپٹئے ، پھر مَقام اِبراہیم کے پاس جاکر دو رَکْعَت نَماز ادا کیجئے ۔ (اَلْمَسْلَکُ الْمُتَقَسِّط ص۱۳۸)
اب بابُ الکعبہ کے سامنے والی سیدھ میں دور رکھے ہوئے آبِ زَم زَم شریف کے کولروں پر تشریف لائیے اور(یاد رہے ! مسجِدمیں آبِ زم زم پیتے وَقْت اعتِکاف کی نیّت ہوناضَروری ہے )قِبلہ رُو کھڑے کھڑے تین سانس میں خوب پیٹ بھر کر پئیں ، فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہے : ہمارے اور منافقین کے درمیان فرق یہ ہے کہ وہ ز مزم پیٹ بھر کر نہیں پیتے ۔ (ابن ماجہ ج۳ ص۴۸۹حدیث ۳۰۶۱)ہر بار بِسْمِ اللّٰہِ سے شُروع کیجئے اور پینے کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّکہئے ہر بار کَعبۂ مُشَرَّفہ کی طر ف نِگا ہ اُٹھا کر دیکھ لیجئے ، باقی پانی جِسم پر ڈالئے یا مُنہ سَر اور بدن پر اُس سے مَسْح کرلیجئے مگر یہ اِحتِیاط رکھئے کہ کوئی قطرہ زمین پر نہ گرے ۔ پیتے وَقْت دُعا کیجئے کہ قبول ہے ۔
دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : {۱}یہ (آبِ زم زم ) بابَرَکت ہے اور بھوکے کیلئے کھانا ہے اور مریض کیلئے شِفا ہے ۔ (ابوداود طیالسی ص ۶۱حدیث ۴۵۷ ) {۲} زَم زَم جس مراد سے پِیاجائے اُسی کیلئے ہے ۔ ( اِبنِ ماجہ ج ۳ ص ۴۹۰ حدیث۳۰۶۲)
یہ زَم زَم اُس لئے ہے جس لئے اِس کو پئے کوئی