ساتھ صلوٰۃ وسلام عَرض کر رہی تھی، یہ دیکھ کر بے چاری اَن پڑھ بُڑھیا کا دِل ڈوبنے لگا، عرض کی : یارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!میں تو پڑھی لکھی ہوں نہیں جو اچّھے اچّھے الفاظ کے ساتھ سلام عرض کرسکوں ، مجھ اَن پڑھ کا سلام آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کہاں پسند آئے گا! دِل بھر آیا، رو دھوکر چُپ ہورہی ۔ رات جب سوئی تو سوئی ہوئی قسمت اَنگڑائی لے کر جاگ اُٹھی! کیا دیکھتی ہے کہ سرہانے اُمَّت کے والی، سرکارِ عالی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے ہیں ، لب ہائے مُبارَکہ کوجُنبِش ہوئی، رحمت کے پھول جھڑنے لگے ، اَلفاظ کچھ یوں ترتیب پائے : ’’مایوس کیوں ہوتی ہو؟ ہم نے تمہارا سلام سب سے پہلے قَبول فرمایا ہے ۔ ‘‘
تم اُس کے مددگار ہو تم اُس کے طرفدار جو تم کو نکمّے سے نکمّا نظر آئے
لگاتے ہیں اُس کو بھی سینے سے آقا جو ہوتا نہیں مُنہ لگانے کے قابِل
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اَلْاِنْتِظَار...! اَلْاِنْتِظَار….!
سبز سبزگنبد اور حُجرۂ مَقصُورَہ (یعنی وہ مبارک کمرہ جس میں حُضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبرِ منوَّر ہے ) پر نظر جمانا عبادت اور کارِ ثواب ہے ۔ زِیادہ سے زِیادہ وَقتمسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں گزارنے کی کوشش کیجئے ۔ مسجد شریف میں بیٹھے ہوئے دُرُود وسلام پڑھتے ہوئے حُجرۂ مُطَہَّرہ پر جتنا ہوسکے نگاہِ عقیدت جمایا کیجئے اور اِس حسین تَصَوُّر میں ڈوب جایا کیجئے گویا عنقریب ہمارے میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حُجرۂ مُنوَّرہ سے باہَر تشریف لانے والے ہیں ۔ ہجروفراق اور اِنتظا رِآقا ئے نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں اپنے آنسو ؤ ں کو بہنے دیجئے ۔
کیا خبر آج ہی دِیدار کا اَرماں نکلے اپنی آنکھوں کو عقیدت سے بچھائے رکھئے
سگِ مدینہ عفی عنہ کو۱۴۰۰ھ کی حاضِری میں مدینۂ پاک زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں بابُ المدینہ کراچی کے ایک نوجوان حاجی نے بتایاکہ میں مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں رَحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حُجرۂ مَقصُورہ کے پیچھے پُشتِ اَطہر کی جانِب سبز جالیوں کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا کہ عَین بیداری کے عالم میں ، میں نے دیکھا کہ اَچانک سبز سبزجالیوں کی رُکاوٹ ہٹ گئی اور تا جدارِ مدینہ، قرارِقلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حُجرۂ پاک سے باہَر تشریف لے آئے اور مجھ سے فرمانے لگے : ’’مانگ کیا مانگتا ہے ؟‘‘میں نور کی تجلّیوں میں اِس قَدَر گُم ہوگیا کہ کچھ عرض کرنے کی جَسارَت(یعنی ہمّت) ہی نہ رہی، آہ!میرے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جلوہ دِکھا کر مجھے تڑپتا چھوڑ کر اپنے حُجرۂ مُطَہَّرہ میں واپَس تشریف لے گئے ۔
شربتِ دِید نے اِک آگ لگائی دِل میں تَپِش دِل کو بڑھایا ہے بجھانے نہ دِیا
اب کہاں جائے گا نقشہ ترا میرے دل سے تہ میں رکھا ہے اِسے دل نے گمانے نہ دیا
مَکّے مدینے کی گلیوں میں تھوکانہ کیجئے ، نہ ہی ناک صاف کیجئے ۔ جانتے نہیں اِن گلیوں سے ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ گزرے ہیں ۔
اَو پائے نظر ہوش میں آ ، کُوئے نبی ہے آنکھوں سے بھی چلنا تو یہاں بے ادبی ہے
جنَّتُ البَقِیع شریف نیز جنَّتُ المَعلٰی(مَکّہ مکرّمہ)دونوں مقدّس قبرِستانوں کے مقبروں اور مزاروں کو شہید کردیاگیا ہے ۔ ہزارہا صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماور بے شمار اَہلبیتِ اَطہار رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن و اَولیاء کِبارو عُشّاقِ زار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارکے مزارات کے نُقوش تک مِٹا دئیے گئے ہیں ۔ حاضِری کیلئے اندر داخِلے کی صورت میں آپ کا پاؤں مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی بھی صَحابی یا عاشقِ رسول کے مزار شریف پر پڑسکتا ہے !شَرعی مسئلہ یہ ہے کہ عام مسلمانوں کی قبروں پر بھی پاؤں رکھنا حرام ہے ۔ ’’رَدُّالْمُحتار‘‘میں ہے : (قبرِستان میں قبریں مِٹا کر)جونیاراستہ نکالا گیاہو اُس پرچلنا حرام ہے ۔ (رَدُّالْمُحتارج۱ص۶۱۲) بلکہ نئے راستے کا صِرف گمان ہو تب بھی اُس پر چلنا ناجائز وگناہ ہے ۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۱۸۳ )لہٰذا مَدَنی التجا ہے کہ باہَر ہی سے سلام عَرض کیجئے اور وہ بھیجنَّتُ البَقِیع کے صدر دروازے (MAIN ENTRANCE)پر نہیں بلکہ اُس کی چار دیواری کے باہَر اُس سَمت کھڑے ہوں جہاں سے قبلے کو آپ کی پیٹھ ہو تا کہ مَدفُونینِ بَقِیع کے چِہرے آپ کی طرف رہیں ۔ اب اس طرح
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ فَاِنَّاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَا حِقُوْنَ ط اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِاَ ھْلِ الْبَقِیْعِ الْغَرْقَدِ ط اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَ لَھُمْ ط
ترجمہ : تم پر سلام ہو اے مومنوں کی بستی میں رہنے والو!ہم بھی اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّتم سے آملنے والے ہیں ۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!بقیعِ غَرقد والوں کی مغفرت فرما ۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!ہمیں بھی مُعاف فرما اور انہیں بھی مُعاف فرما ۔