رفیق المعتمرین

سُوال : خوشبودار شیمپو سے سر یا داڑھی دھو سکتے ہیں   یا نہیں  ؟

جواب :  رسالہ’’ اِحرام اور خوشبو دار صابن‘‘ صَفْحَہ25تا28سے بعض اِقتِباسات مُلا حَظہ ہوں   : شیمپو  اگر سریا داڑھی میں   استعمال کیا جائے ، تو خوشبو کی مُمانَعَت کی عِلّت (یعنی وجہ) پر غور کے نتیجے میں   اس کی مُمانَعَت کا حکم ہی سمجھ میں   آتا ہے ، بلکہ کَفّارہ بھی ہونا چاہیے ، جیسا کہ خِطمِی (خوشبوداربُوٹی)سے سر اور داڑھی دھونے کا حکم ہے کہ یہ بالوں   کونَرْم کرتا ہے اور جُوئیں   مارتا ہے اورمُحرِم کے لیے یہ ناجائز ہے ۔ ’’دُرمختار ‘‘ میں   ہے : سر اور داڑھی کو خِطمِی سے دھونا (حرام ہے ) کیونکہ یہ خوشبو ہے یا جُوؤں   کو مارتا ہے ۔ (دُرّمختارج ۳ ص ۵۷۰) صاحِبَین( یعنی امام ابو یوسف اور امام محمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہما)  کے نزدیک چُونکہ یہ خوشبو نہیں  ، لہٰذا یہاں   ’’جنایتِ قاصِرہ‘‘ (نامکمَّل جُرم) کا ثُبوت ہوگا اور اس کا مُوجَب ’’صَدَقہ‘‘ ہے ۔ شَیمپو سے سَر دھونے کی صورت میں   بھی بظاہِر’’ جِنایتِ قاصِرہ‘‘ (یعنی نامکمَّل جُرم) کا وُجُود ہی سمجھ میں   آتا ہے کہ اس میں   بھی آگ کا عمل ہوتا ہے ۔  لہٰذا خوشبو کا حکم تو ساقِط ہوگیا لیکن بالوں   کو نَرْم کرنے اور جُوئیں   مارنے کی عِلّت(یعنی سبب) موجود ہے ، لہٰذا ’’صَدَقہ‘‘ واجِب ہونا چاہیے ۔ یہ اَمْر بھی قابلِ توجُّہ ہے کہ اگر کسی کے سر پر بال اورچِہرے پر داڑھی نہ ہو ، تو کیا اب بھی حکم سابِق ہی لگایا جائے گا…؟بظاہِر اس صورت میں   کفّارے کا حکم نہیں   ہونا چاہیے ، کیونکہ حُکمِ مُمانَعَت کی عِلّت(سبب) بالوں   کا نَرْم اورجُوؤں   کا ہَلاک ہونا تھا، اور مذکورہ صورت میں   یہ عِلّت مَفقُود(یعنی سبب غیر موجود) ہے اور اِنتفاء عِلّت (یعنی سبب کا نہ ہونا) اِنتفائِ مَعْلُول کو مُسْتَلزَم ( لازم کرنے والی) ہے لیکن اس سے اگر مَیل چُھوٹے تو یہ مکروہ ہے کہ مُحرِم کومَیل چُھڑانا مکروہ ہے ۔ اور ہاتھ دھونے میں   اس کی حیثیَّت صابُن کی سی ہے کیونکہ یہ مائع(یعنی لکوِڈ ۔ liquid) حالت میں   صابُن ہی ہے اور اِس میں   بھی آگ کا عمل کیا جاتا ہے ۔

سُوال : مسجِدَینِ کریمین کے فرش کی دھلائی میں   جو خوشبو دار مَحلول (SOLUTION) استِعمال کیا جاتا ہے ، اُس میں   لاکھوں   مُحرِمِین کے پاؤں   سَنتے ( یعنی آلودہ) ہوتے رہتے ہیں   کیا حُکم ہے ؟

جواب : کوئی کفّارہ نہیں   کہ یہ خوشبو نہیں  ۔ اوربِالفرض یہ مَحلول خالِص خوشبو بھی ہوتا ، تو بھی کفّارہ واجِب نہ ہوتا، کیونکہ ظاہر یہ ہے کہ یہ مَحلُول پہلے پانی میں   ملایا جاتا ہے اور پانی اس محلول سے زائد اور یہ محلو ل مغلوب(کم) ہوتا ہے اور اگر مائِع(یعنی لکوِڈ ۔ liquid) خوشبو کو کسی مائِع میں   ملایا جائے اور مائِع غالِب ہو، تو کوئی جَزاء نہیں   ہوتی ۔  کُتُبِ فِقہ میں   جومَشروبات کا حُکم عُموماً تحریر ہے اِس سے مُراد ٹھوس خوشبو کا مائِع میں   ملایا جانا ہے ۔  علّامہ حسین بِن محمد عبدالغنی مکی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی ’’اِرشادُالسّاری‘‘ صَفْحَہ 316 میں   فرماتے ہیں    : اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ گیلی شکر ( یعنی میٹھا شربت) اور اس کی مِثل ، گُلاب کے پانی کے ساتھ ملایا جائے ، تو اگر عَرَقِ گُلاب مغلوب ہو، جیسا کہ عادۃً ایسا ہی عام طور پر ہوتا ہے ، تو اس میں   کوئی کفّارہ نہیں   اور حضرتِ علّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی نے اسی کی مِثل’’ طَرابُلُسِی ‘‘سے نَقْل کیا اور اسے برقرار رکھا اور اس کی تائید کی اور اس کی اصل’’مُحیط ‘‘میں   ہے ۔  (ایضاًص۲۸تا۲۹)

سُوال : مُحرِم نے اگر ٹوٹھ پیسٹ استِعمال کر لی تو کیا کفّارہ ہے ؟

جواب : ٹوتھ پیسٹ میں   اگر آگ کا عمل ہوتا ہے ، جیسا کہ یہی مُتَبادِر (یعنی ظاہِر ) ہے ، جب تو حکمِ کفّارہ نہیں  ، جیسا کہ ماقَبل تفصیل سے گزر چکا ۔ (ایضا ص ۳۳) البتّہ اگر منہ کی بد بُو دُور کرنے اور خوشبو حاصِل کرنے کی نیّت ہو تو مکروہ ہے ۔ میرے آقااعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِسنّت ، مجدِّدِ دین وملّت ، مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں   : ’’ تمباکو کے قِوام میں   خوشبو ڈال کر پکائی گئی ہو، جب تو اس کا کھانا مُطْلَقاً جائز ہے اگرچِہ خوشبو دیتی ہو، ہاں   خوشبو ہی کے قَصْد سے اسے اختیار کرنا کراہت سے خالی نہیں   ۔ ‘‘      ( فتاوی رضویہ ج ۱۰ ص ۷۱۶)

  سلے ہوئے کپڑے وغیرہ کے مُتَعلّق سُوال وجواب

سُوال : مُحرِم نے اگر بھول کر سِلا ہوا لباس پہن لیا اور دَس منٹ کے بعد یاد آتے ہی اُتار دیا تو کوئی کَفّارہ وغیرہ ہے یا نہیں؟

جواب : ہے ، اگرچِہ ایک لمحے کے لئے پہنا ہو ۔ جان بوجھ کر پہنا ہو یا بُھولے سے ، ’’صَدَقہ‘‘ واجِب ہوگیا اور اگرچار پَہَر([1])یا اِس سے زِیادہ چاہے لگا تار کئی دِن تک پہنے رہا’’ دَم ‘واجِب ہوگا ۔    (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ   ج۱۰ ص ۷۵۷ )

سُوال : اگر ٹوپی یا عمامہ پہنا یا اِحْرام ہی کی چادرمُحرِم نے سَریامُنہ پر اَوڑھ لی یا اِحرام کی نیّت کرتے وَقْت مَرْد سلے ہوئے کپڑے یا ٹوپی اُتارنا بھول گیا یا بھیڑ میں   دوسرے کی چادر سے مُحرِم کا سر یا مُنہ ڈھک گیا تو کیا سزا ہے ؟

جواب : جان بوجھ کر ہو یا بھول کر یا کسی دوسرے کی کوتاہی کی بِنا پر ہوا ہو کفّارے دینے ہوں   گے ہاں   جان بوجھ کر جُرم کرنے میں   گناہ بھی ہے لہٰذا توبہ بھی واجِب ہو گی ۔ اب کفّارہ سمجھ لیجئے :  مَرْد سارا سَر یا سَر کا چوتھائی (4 / 1 حصَّہ یا مَرْد خواہ عورَت مُنہ کی ٹِکلی ساری یعنی پورا چہرہ یا چوتھائی حصَّہ چار پَہَر یا زِیادہ لگاتار چُھپائیں   ’’دَم‘‘ ہے اورچَوتھائی سے کم چارپَہَر تک یا چار پَہَر سے کم اگرچِہ سارا مُنہ یا سَر تو’’ صَدَقہ ‘‘ ہے اور چہارُم (یعنی چوتھائی) سے کم کو چارپَہَر سے کم تک چھپائیں   تو کَفّارہ نہیں   مگر گناہ ہے ۔   (ایضاً ص ۷۵۸)

سُوال : نزلے میں   کپڑے سے ناک پونچھ سکتے ہیں   یا نہیں   ؟

جواب : کپڑے سے نہیں   پونچھ سکتے ، کپڑا یاتو لیہ دُور ر کھ کر اُس میں   ناک سِنک (یعنی جھاڑ ) لیجئے ۔ صَدرُالشَّریعہ، بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  فرماتے ہیں   : کان اور گُدی کے چُھپانے میں   حَرَج نہیں    ۔ یوہیں   ناک پر خالی ہاتھ رکھنے میں   اور اگر ہاتھ میں   کپڑا ہے اور کپڑے سَمیت ناک پر ہاتھ رکھا تو کَفّارہ نہیں   مگر مکروہ و گناہ ہے ۔  (بہار شریعت ج۱ص۱۱۶۹)

اِحرام میں   ٹشو پیپر کا استِعمال

سُوال : ٹشو پیپر سے منہ کا پسینہ یاوُضو کاپانی یانزلے میں   ناک پونچھ سکتے ہیں   یا نہیں  ؟

جواب : نہیں   پونچھ سکتے ۔

 



[1]    چار پہر یعنی ایک دن یا ایک رات کی مقدار مَثَلاً طُلوعِ آفتاب سے غُروبِ آفتاب یا غُروبِ آفتاب سے طُلوعِ آفتاب یا دوپَہَر سے آدھی رات یا آدھی رات سے دوپَہَر تک ۔  (حاشیہ اَنور البِشارہ مع فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ،  ج۱۰ ,ص ۷۵۷ )

Index