اب سَراپا ادب و ہوش بنے ، آنسو بہاتے یا رونا نہ آئے تو کم از کم رونے جیسی صورت بنائے بابِ بقیع([1])پر حاضِر ہوں ۔ ’’اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ‘‘عرض کر کے ذرا ٹھہر جایئے ۔ گویا سرکارِ ذِی وَقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شاہی دَربار میں حاضِری کی اِجازت مانگ رہے ہیں ۔ اب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم کہہ کر اپنا سیدھا قَدَم مسجِد شریف میں رکھئے اور ہمہ تن ادب ہو کر داخلِ مسجدِ نبوی زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً ہوں اِس وَقت جو تعظیم و ادب فرض ہے وہ ہر عاشقِ رسول کا دِل جانتا ہے ۔ ہاتھ، پاؤں ، آنکھ، کان، زَبان، دِل سب خَیالِ غَیر سے پاک کیجئے اور روتے ہوئے آگے بڑھئے ، نہ اردگرد نظریں گھُمایئے ، نہ ہی مسجِد کے نَقش ونِگار دیکھئے ، بس ایک ہی تڑپ، ایک ہی لگن اورایک ہی خَیال ہو کہ بھاگا ہوا مجرِم اپنے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہِ بے کس پنا ہ میں پیش ہونے کے لئے چلا ہے ۔
چلا ہوں ایک مجرِم کی طرح میں جانِبِ آقا
نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ
اب اگر مکروہ وَقْت نہ ہو اور غَلَبۂ شوق مُہْلَت دے تو دو دو رَکعَت تَحِیَّۃُ الْمَسْجِدو شکرانۂ بارگاہِ اَقدس ادا کیجئے ، پہلی رَکْعَت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَۙ اور دوسری میں الحمد شریف کے بعدقُلْ ھُوَاللّٰہُ شریف پڑھئے ۔
اب ادب وشوق میں ڈوبے ، گردن جُھکائے ، آنکھیں نیچی کئے ، رونے والی صورت بنائے بلکہ خود کو بزور رونے پر لاتے ، آنسو بہاتے ، تھرتھراتے ، کپکپاتے ، گناہوں کی نَدامت سے پسینہ پسینہ ہوتے ، سرکارِنامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فَضل وکَرَم کی اُمّید رکھتے ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قَدَمَینِ شَرِیفَین([2])کی طرف سے سُنَہر ی جالیوں کے رُوبَرُو مواجَھَہ(مُوا ۔ جَ ۔ ھَہْ) شریف میں ( یعنی چِہرۂ مبارَک کے سامنے ) حاضِر ہوں کہ سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے مزارِ پُر اَنوار میں رُو بَقِبلہ جلوہ اَفروز ہیں ، مُبارَک قدموں کی طرف سے حاضِر ہوں گے تو سرکارِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نِگاہِ بے کس پناہ براہِ راست آپ کی طرف ہوگی اور یہ بات آپ کیلئے دونوں جہاں میں کافی ہے ۔ وَالحمدُللّٰہ ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۱۲۲۴)
اب سَراپا ادب بنے زِیرِقِندِیل اُن چاندی کی کِیلوں کے سامنے جوسُنہری جالیوں کے دروازۂ مُبارَکہ میں اُوپر کی طرف جانِبِ مشرِق لگی ہوئی ہیں ، قبلے کو پیٹھ کئے کم از کم چار ہاتھ (یعنی تقریباً دو گز)دُور نَماز کی طرح ہاتھ باندھ کر سرکار ِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرۂ پُراَنوار کی طرف رُخ کر کے کھڑے ہوں کہ ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘وغیرہ میں یِہی ادب لکھا ہے کہ یَقِفُ کَمَا یَقِفُ فِی الصَّلٰوۃ یعنی’’ سر کارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دَربار میں اِس طرح کھڑا ہو جس طرح نَماز میں کھڑا ہوتا ہے ۔ ‘‘یقین مانئے !سرکارِ ذی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے مزارِ فائضُ الانوارمیں سچّی حقیقی دنیاوی جسمانی حیات سے اُسی طرح زندہ ہیں جس طرح وفات شریف سے پہلے تھے اور آپ کو بھی دیکھ رہے ہیں بلکہ آپ کے دِل میں جو خَیالات آرہے ہیں اُن پر بھی مُطَّلع (یعنی باخبر) ہیں ۔ خبردار! جالی مُبارَک کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچئے کہ یہ خِلافِ اَدَب ہے ، ہمارے ہاتھ اِس قابِل ہی نہیں کہ جالی مُبارَک کو چُھو سکیں ، لہٰذا چار ہاتھ (یعنی تقریباً دو گز)دُور رہئے ، یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ آپ کو اپنے مُواجَھَۂ اَقدس کے قریب بُلایا! سرکارِنامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نِگاہِ کرَم اگر چِہ ہرجگہ آپ کی طرف تھی، اب خُصُوصِیَّت اور اِس دَرَجۂ قُرب کے ساتھ آپ کی طرف ہے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۱۲۲۴، ۱۲۲۵ )
دِیدار کے قابِل تو کہاں میری نظر ہے
یہ تیری عنایت ہے جو رُخ تیرا اِدھر ہے
بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں سلام عرض کیجئے
اب ادب اور شوق کے ساتھ غمگین اور درد بھری آواز میں مگر آواز اتنی بلند اور سخت نہ ہو کہ سارے اعمال ہی ضائع ہوجائیں ، نہ بالکل ہی پَست(یعنی دھیمی) کہ یہ بھی سُنَّت کے خِلاف ہے ، مُعتَدِل(یعنی درمیانی) آواز میں اِن الفاظ کے ساتھ سلام عرض کیجئے : اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا خَیْرَ خَلْقِ اللّٰہِ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا شَفِیْعَ الْمُذْنِبِیْنَ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ وَ عَلٰی اٰلِكَ وَاَصْحٰبِكَ وَ اُمَّتِكَ اَجْمَعِیْنَ ط
ترجمہ : اے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَآپ پر سلام اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحمتیں اور بَرَکتیں ۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ پر سلام ۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی تمام مخلوق سے بہتر آپ پر سلام ۔ اے گنہگاروں کی شَفاعت کرنے والے آپ پر سلام، آپ پر، آپ کی آل و اصحاب پر اور آپ کی تمام امت پر سلام ۔
جہاں تک زَبان ساتھ دے ، دِل جَمعی ہو مختلف اَلقاب کے ساتھ سلام عرض کرتے رہئے ، اگر اَلقاب یاد نہ ہوں تو اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ کی تکرار کرتے (یعنی یِہی بار بار پڑھتے )
[1] یہ مسجدِ نبوی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جانِبِ مشرِق واقع ہے ۔ عُمُومادربان بابِ بقیع سے حاضِری کے لئے نہیں جانے دیتے لہٰذا لوگ بابُ السّلام ہی سے حاضِر ہوتے ہیں اِس طرح حاضِری کی ابتِدا ء سرِاقدس سے ہوگی اور یہ خلافِ ادب ہے کیونکہ بُزُرگوں کی خدمت میں قدموں کی طرف سے آنا ہی ادب ہے ۔ اگر بابِ بقیع سے حاضِری نہ ہو سکے تو بابُ السّلام سے بھی حَرَج نہیں ۔ اگر بھیڑ وغیرہ نہ ہو تو کوشش کیجئے کہ بابِ بقیع سے حاضِری ہو جائے ۔
[2] بابُ البقیع سے حاضِری ملی تو پہلے قَدَمین شریفین آئیں گے اور بابُ السّلام سے آئے تو پہلے سرِ اقدس آئے گا ۔
[3] لوگ عُموماً بڑے سوراخ کو’’مُواجَھَہ شریف‘‘ سمجھتے ہیں بلکہ اکثر اردو کتابوں میں بھی یہی لکھاہے مگر رفیق المعتمرین میں اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ کی تحقیق کے مطابق مُواجَھَہ شریف کی نشاندہی کی گئی ہے ۔