صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سُوال وجواب کے مطالَعے سے قَبْل چند ضَروری اِصطِلاحات وغیرہ ذِہن نشین کرلیجئے ۔
{۱} دَم یعنی ایک بکرا ۔ (اِس میں نَر، مادہ، دُنبہ، بَھیڑ، نیز گائے یا اُونٹ کا ساتواں حصَّہ سب شامل ہیں )
{۲} بَدَنہ یعنی اُونٹ یا گائے ۔ (اِس میں بیل ، بھینس وغیرہ شامل ہیں )
گائے بکرا وغیرہ یہ تمام جانور اُن ہی شرائط کے ہوں جو قربانی میں ہیں ۔
{۳}صَدَقہ یعنی صَدَقہ ٔفِطر کی مِقدار ۔ آ ج کل کے حساب سے صَدَقۂ فِطر کی مِقدار 2کلومیں سے 80گرام کم گندُم یا اُس کا آٹا یا اُس کی رقم یا اُس کے دُگنے جَو یاکَھجور یا اُس کی رقم ہے ۔
اگر بیماری، سَخْت سردی، سخت گرمی، پھوڑے اور زَخْم یا جُوؤں کی شدید تکلیف کی وجہ سے کوئی جُرْم ہوا تو اُسے ’’جُرمِ غیراِختِیاری‘‘کہتے ہیں ۔ اگر کوئی ’’جُرمِ غیر اِختِیاری‘‘صادِر ہوا جس پر دَم واجِب ہوتا ہے تو اِس صورت میں اِختِیار ہے کہ چاہے تو دَم دے دے اور اگر چاہے تو دَم کے بدلے چھ مِسکِینوں کو صَدَقہ دے دے ۔ اگر ایک ہی مِسکِین کو چھ صَدَقے دے دیئے تو ایک ہی شُمار ہو گا ۔ لہٰذا یہ ضَروری ہے کہ الگ الگ چھ مسکینوں کو دے ۔ دوسری رِعایت یہ ہے کہ اگر چاہے تو دَم کے بد لے چھ مَساکین کو دونوں وَقْت پیٹ بھر کر کھانا کِھلا دے ۔ تیسری رِعایت یہ ہے کہ اگر صَدَقہ وغیرہ نہیں دینا چاہتا تو تین روزے رکھ لے ’’دَم‘‘ ادا ہوگیا ۔ اگر کوئی ایسا جُرمِ غیراِختِیاری کیا جس پر صَدَقہ واجِب ہوتا ہے تو اِختِیار ہے کہ صَدَقے کے بجائے ایک روزہ رکھ لے ۔ (مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج۱ ص ۱۱۶۲ )
دم، صدقے اور روزے کے ضروری مسائل
اگر کَفّارے کے روزے رکھیں تو یہ شَرْط ہے کہ رات سے یعنی صُبْحِ صادِق سے پہلے پہلے یہ نیَّت کرلیں کہ یہ فُلاں کَفّارے کا روزہ ہے ۔ اِن’’ روزوں ‘‘ کے لئے نہ اِحْرام شَرْط ہے نہ ہی اِن کا پے درپے ہونا ۔ صَدَقے اور روزے کی ادائیگی اپنے وطن میں بھی کرسکتے ہیں ، البتَّہ صَدَقہ اور کھانا اگر حَرَم کے مَساکین کو پیش کردیا جائے تو یہ افضل ہے ۔ دَم اور بَدَنہ کے جانور کا حَرَم میں ذَبْح ہونا شَرْط ہے ۔ شکرانے کی قُربانی کا گوشْتْ آپ خود بھی کھایئے ، مال دار کو بھی کھلایئے اورمَساکین کو بھی پیش کیجئے ، مگر کَفّارے یعنی ’’دَم‘‘اور’’ بَدَنے ‘‘وغیرہ کا گوشْتْ صِرْف محتاجوں کا حق ہے ، نہ خود کھاسکتے ہیں نہ غنی کوکِھلاسکتے ہیں ۔ (مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج۱ ص ۱۱۶۲ ، ۱۱۶۳)
اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈریئے
بعض نادان جان بو جھ کر ’’جُرم‘‘ کرتے ہیں اور کَفّارہ بھی نہیں دیتے ۔ یہاں دو گُناہ ہوئے ، ایک تو جان بوجھ کر جُرْم کرنے کااوردوسرا کَفّارہ نہ دینے کا ۔ ایسوں کوکَفّارہ بھی دینا ہو گا اور توبہ بھی واجِب ہوگی ۔ ہاں مجبوراً جُرْم کرنا پڑا یابے خیالی میں ہو گیا تو کَفّارہ کافی ہے گناہ نہیں ہوا اِس لئے توبہ بھی واجِب نہیں اور یہ بھی یاد رکھئے کہ جُرْم چاہے یاد سے ہو یابُھولے سے ، اس کا جُرْم ہونا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، خوشی سے ہویا مجبوراً، سوتے میں ہویا جاگتے میں ، بے ہوشی میں ہو یا ہوش میں ، اپنی مرضی سے کیا ہو یا دوسرے کے ذَرِیعے کروایا ہو ہرصُورت میں کَفّارہ لازِمی ہے ، اگرنہیں دے گا تو گنہگار ہوگا ۔ جب خَرْچ سَر پر آتا ہے تو بعض لوگ یہ بھی کہہ دیا کرتے ہیں : ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ مُعاف فرمائے گا!‘‘اور پھر وہ دَم وغیرہ نہیں دیتے ۔ اَیسوں کوسوچنا چاہئے کہ کَفّارات شریعت ہی نے واجِب کئے ہیں اور جان بوجھ کر ٹالَمْ ٹَول کرنا شریعت ہی کی خِلاف وَرزی ہے جو کہ سخت تر ین جُرْم ہے ۔ بعض مال کے متوالے نادان حُجّاج، عُلَمائے کرام سے یہاں تک پوچھتے سنائی دیتے ہیں کہ صِرْف گناہ ہے نا!دم تو واجِب نہیں ؟ (مَعَاذَ اللہ) صدکروڑ افسوس! چند سکّے بچانے ہی کی فکر ہے ، گناہ کے سبب ہونے والے سخت عذاب کے اِستحقاق کی کوئی پرواہ نہیں ، گناہ کو ہلکا جاننا بَہُت سخت بات بلکہ بعض صورَتوں میں کُفْر ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ مَدَنی فکْر نصیب فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
طَواف کے بارے میں مُتَفَرِّق سُوال وجواب
سُوال : بھیڑ کے سبب یا بے خَیالی میں کسی طَواف کے دَوران تھوڑی دیر کے لئے اگر سینہ یا پیٹھ کعبے کی طرف ہوجائے تو کیا کریں ؟
جواب : طَواف میں سینہ یا پیٹھ کئے جتنا فاصِلہ طے کیا ہو اُتنے فاصلے کااِعادہ (یعنی دوبارہ کرنا ) واجِب ہے اور افضل یہ ہے کہ وہ پَھیرا ہی نئے سرے سے کرلیا جائے ۔
تکبیرِطواف میں ہاتھ کہاں تک اُٹھائیں ؟
سُوال : تکبیرِطواف میں حجرِ اَسْوَد کے سامنے ہاتھ کندھوں تک اُٹھانا سنَّت ہے یا نَمازی کی طرح کانوں تک؟
جواب : اِس میں عُلَماء کے مختلف اَقوال ہیں ۔ ’’ فتاوٰی حج و عمرہ‘‘ میں جُداجدا اقوال نَقْل کرتے ہوئے لکھا ہے : کانوں تک ہاتھ اُٹھانا مَرْد کیلئے ہے کیوں کہ وہ نَماز کیلئے بھی کانوں تک ہاتھ اُٹھاتا ہے