رفیق المعتمرین

صائم کمالِ ضَبط کی کوشش تو کی مگر

پَلکوں   کا حلقہ توڑ کر آنسو نکل گئے

            ہَوائے مدینہ سے آپ کے مشامِ دماغ مُعطّرہورہے ہوں   گے اور آپ اپنی رُوح میں   تازَگی محسوس کر رہے ہوں   گے ، ہوسکے تو ننگے پاؤں   روتے ہوئے مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی فَضاؤں   میں   داخِل ہوں  ۔

جُوتے اُتار لو چلو باہوش باادب                     دیکھو مدینے کا حسیں   گلزار آگیا

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ننگے پاؤں رہنے کی قرآنی دلیل

اوریہاں   ننگے پاؤں   رَہنا کوئی خِلافِ شَرع فعل بھی نہیں   بلکہ مقدَّس سَر زمین کا سَراسَر ادب ہے ۔  چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامنے اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ سے ہم کلامی کا شَرَف حاصل کیا تو اللہ عَزَّ   وَجَلَّنے ارشادفرمایا :

فَاخْلَعْ نَعْلَیْكَۚ-اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًىؕ(۱۲) (پ۱۶طٰہٰ : ۱۲)

ترجَمۂ کنزالایمان : تو اپنے جُوتے اُتار ڈال ، بیشک تُو پاک جنگل طُویٰ میں   ہے ۔

     سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ!جب طورِ سینا کی مقدّس وادی میں   سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو خود اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی جُوتے اُتار لینے کا حکم فرمائے تو مدینہ تو پھر مدینہ ہے ، یہاں   اگر ننگے پاؤں   رہا جائے تو کیوں   سَعادت کی بات نہ ہوگی!کروڑوں   مالکیوں   کے پیشوا اور مشہور عاشقِ رسول حضرتِ سیِّدُنا امام مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مدینۂ پاک زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی گلیوں   میں   ننگے پیر چلا کرتے تھے ۔  (الطبقاتُ الکُبریٰ لِلشَّعرانی الجزء الاول ص ۷۶ )آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں  کبھی گھوڑے پر سُوار نہ ہوتے ، فرماتے ہیں   : ’’ مجھے اللہ عَزَّ   وَجَلَّ سے حیا آتی ہے کہ اُس مبارَک زمین کواپنے گھوڑے کے قدموں   تلے رَوندوں  جس میں   اُس کے پیارے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَموجودہیں   ۔ (یعنی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا روضہ انور ہے )   (اِحیاءُ العلوم  ج۱ ص ۴۸ )

حاضری کی تیاری

اے خاکِ مدینہ!تُو ہی بتا میں   کیسے پاؤں   رکھوں   یہاں

تُو خاکِ پا سرکار کی ہے آنکھوں   سے لگائی جاتی ہے

 حاضِریٔ روضۂ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے پہلے مکان وغیرہ کا بندوبست کر لیجئے ، حاجت ہو توکھا پی لیجئے ، اَلغَرَض ہر وہ بات جو خُشُوع وخُضُوع میں   مانِع ہو اُس سے فارِغ ہو لیجئے ۔ اب تازہ وُضُو کیجئے اِس میں   مسواک ضَرور ہو بلکہ بہتر یہ ہے کہ غُسل کر لیجئے ، دُھلے ہوئے کپڑے بلکہ ہو سکے تو نیا سفید لباس ، نیا عمامہ شریف وغیرہ زیبِ تن کیجئے ، سُرمہ اورخوشبو لگالیجئے اور مُشک افضل ہے ، اب روتے ہوئے دَربار کی طرف بڑھئے ۔  (بہارِ شریعت ج۱ ص۱۲۲۳ماخوذاً)

اے لیجئے !سبز گنبد آگیا

اے لیجئے !وہ سبز سبز گنبد جسے آپ نے تصویروں   میں   دیکھا تھا، خیالوں   میں   چُوما تھا اب سَچ مُچ آپ کی آنکھوں   کے سامنے ہے ۔   

 

اَشکوں   کے موتی اب نِچھاوَر زائرو کرو                            وہ سبز گنبدمَنبعِ اَنوارآگیا

اب سَرجھکائے باادب پڑھتے ہوئے دُرُود

روتے ہوئے آگے بڑھو  دَربار  آگیا(وسائل بخشش ص۴۷۳)

            ہاں  !ہاں  !یہ وُہی سبز گنبد ہے جس کے دیدار کے لئے عاشقانِ رسول کے دِل بے قرار رہتے اور  آنکھیں   اَشکبار ہوجایا کرتی ہیں  ، خُدا عَزَّ   وَجَلَّ کی قسم !رَوْضَۂ رَسَولُ اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عظیم جگہ دُنیا کے کسی مَقام میں   تو کُجا جنَّت میں   بھی نہیں   ہے ۔  

فِردوس کی بُلندی بھی چُھوسکے نہ اِس کو

خُلدِ بریں   سے اُونچا میٹھے نبی کا روضہ(وسائلِ بخشش ص۲۹۸)

            دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃُالمدینہ کی مطبوعہ کتاب  ’’وسائلِ بخشش ‘‘ کے صَفحَہ 298کے حاشیے میں   ہے : روضہ کے لفظی معنی ہیں  : باغ ۔  شعر میں   روضہ سے مُراد وہ حصۂ زمین ہے جس پر رَحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کا جسمِ معظّم تشریف فرما ہے ۔ اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فُقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں  : محبوبِ داور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جسمِ انور سے زمین کا جو حصہ لگا ہوا ہے ۔ وہ کعبہ شریف سے بلکہ عرش و کرسی سے بھی افضل ہے ۔  (دُرِّمُختَارج۴ ص ۶۲)

  ہو سکے توباب البقیع سے حاضر ہوں

 

Index