رفیق المعتمرین

سُوال : بعض غریب عُشّاق عُمرہ یاسفرِحج کے لئے لوگوں   سے مالی اِمداد کا سُوال کرتے ہیں   ، کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟

جواب : حرام ہے ۔  صدرُالافاضل مولانانعیم ُالدِّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی نَقْل کرتے ہیں  : ’’بعض یَمَنی حج کے لئے بے سروسامانی کے ساتھ روانہ ہوتے تھے اور اپنے آپ کو مُتَوَکِّل(یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر بھروسا رکھنے والا) کہتے تھے اور مَکَّہ مکرّمہ پہنچ کر سُوال شُروع کردیتے اور کبھی غَصب و خِیانَت کے بھی مُرتکِب ہوتے ، اُن کے بارے میں   یہ آیتِ مقدَّسہ نازِل ہوئی اور حُکم ہُوا کہ توشہ (یعنی سفر کے اَخراجات)لے کر چلو اَوروں   پر بار نہ ڈالو، سُوال نہ کرو کہ بہتر توشہ(یعنی زادِ راہ) پرہیزگاری ہے ۔ ‘‘ (خزائنُ العرفان ص۶۷مکتبۃ المدینہ )

چُنانچِہ پارہ  2 سُوْرَۃُ الْبَقْرَہآیت نمبر 197میں   ارشادِ ربُّ العباد ہوتا ہے :

وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى٘- (پ ۲، البقرہ۱۹۷)

تَرجَمَۂ کنزُالایمان :  اور توشہ ساتھ لو کہ سب سے بہتر توشہ پرہیزگاری ہے ۔

            سُلطانِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ باقرینہ ہے : ’’جو شخص لوگوں   سے سُوال کرے حالانکہ نہ اُسے فاقہ پہنچا نہ اِتنے بال بچے ہیں   جن کی طاقَت نہیں   رکھتا تو قِیامت کے دِن اِس طرح آئے گا کہ اُس کے مُنہ پَر گوشت نہ ہوگا ۔ ‘‘ (شُعَبُ الْاِیْمان، ج۳، ص۲۷۴حدیث۳۵۲۶)

            مدینے کے دیوانو!بس صَبر کیجئے ، سُوال کی مُمانعت میں   اِس قَدَر اِہتمام ہے کہ فُقَہا ئے کرام  رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلام فرماتے ہیں  : غُسل کے بعد اِحرام باندھنے سے پہلے اپنے بد ن پر خوشبو لگایئے بشرطیکہ اپنے پاس موجود ہو، اگر اپنے پاس نہ ہو تو کسی سے طلب نہ کیجئے کہ یہ بھی سُوال ہے ۔   (رَدُّالمُحتار ج۳ص۵۵۹)

جب بُلایا آقا نے                          خود ہی انتِظام ہوگئے

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

عُمرے کے وِیزے پر حج کیلئے رُکنا کیسا؟

سُوال : بعض لوگ اپنے وطن سے رَمَضانُ المبارَک میں   عُمرے کا وِیزا لے کر حَرَمَیْن طَیِّبَیْن زادَھُمَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْمًاجاتے ہیں   ، وِیزا کی مُدَّت ختم ہو جانے کے باوُجُود وَہیں   رہتے ہیں   یاحج کر کے وطن واپَس جاتے ہیں   اُن کا یہ فِعل شرعاً دُرُست ہے یا نہیں   ؟

جواب :  دُنیا کے ہر ملک کا یہ قانون ہے کہ بِغیر وِیزا کے کسی غیرملکی کو رُکنے نہیں   دیا جاتا ۔  حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن زادَھُمَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْمًا میں   بھی یِہی قاعِدہ ہے ۔  مُدَّتِ وِیزاخَتْم ہونے کے بعد رُکنے والا اگر پولیس کے ہاتھ لگ جائے ، تو اب چاہے وہ اِحْرام کی حالت میں   ہی کیوں   نہ ہو اُسے قید کر لیتے ہیں  ، نہ اُسے عُمرہ کر نے دیتے ہیں  نہ ہی حج، سزا دینے کے بعد ’’خُرُوج‘‘ لگاکر اُسے اُس کے وَطن روانہ کردیتے ہیں    ۔ یاد رہے ! جس قانون کی خلاف ورزی کرنے پر ذلّت ، رشوت اور جھوٹ وغیرہ آفات میں   پڑنے کا اندیشہ ہو اُس قانون کی خلاف ورزی جائز نہیں   ۔ چُنانچِہ میرے آقااعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِسنّت ، مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں   : ’’مُباح (یعنی جائز) صورَتوں   میں   سے بعض(صورَتیں  ) قانونی طور پر جُرم ہوتی ہیں   اُن میں   مُلَوَّث ہونا (یعنی ایسے قانون کی خِلاف ورزی کرنا ) اپنی ذات کو اذیّت وذلّت کے لئے پیش کرنا ہے اور وہ ناجائز ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۱۷ ص۳۷۰)لہٰذا بِغیرvisaکے دنیا کے کسی مُلک میں   رَہنا یا’’حج ‘‘کیلئے رُکنا جائز نہیں   ۔ غیر قانونی ذرائِع سے ’’حج‘‘ کیلئے رُکنے میں   کامیابی حاصِل کرنے کو مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اللّٰہ و رسول  عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاکرم کہنا سخت بے باکی ہے ۔

غیر قانونی رُکنے والے کی نَماز کا اَہم مسئلہ

سُوال :  حج کیلئے بِغیر visaرُکنے والا نَماز پوری پڑھے یا قصر کرے ؟

  جواب : عُمرے کے وِیزے پر جاکر غَیر قانونی طور پرحج کیلئے رُکنے یا دنیا کے کسی بھی ملک میں   visaکی مُدّت پوری ہونے کے بعد غیرقانونی رہنے کی جن کی نیّت ہو وہ ویزا کی مدّت ختم ہوتے وقت جس شہر یا گاؤں   میں   مُقیم ہوں   وہاں   جب تک رہیں   گے اُن کیلئے مُقیم ہی کے اَحکام ہوں   گے اگرچِہ برسوں   پڑے رہیں   ۔ البتّہ ایک بار بھی اگر92 کِلو میٹر یا اِس سے زیادہ فاصلے کے سفر کے ارادے سے اُس شہر یا گاؤں   سے چلے تو اپنی آبادی سے باہَرنکلتے ہی مسافِرہوگئے اوراب اُن کی اِقامت کی نیّت بے کار ہے ۔  مَثَلاً کوئی شخص پاکستان سے عُمرے کے VISA پر مکّۂ مکرَّمہ زادَھُمَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْمًا گیا ، VISA کی مُدّت ختم ہوتے وَقت بھی مکّہ شریف ہی میں   مُقیم ہے تو اُس پر مُقیم کے احکام ہیں  ۔ اب اگر مَثَلاً وہاں   سے مدینۂ منوَّرہ زادَھُمَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْمًا  آگیاتو چاہے برسوں   غَیر قانونی پڑا رہے ، مسافِر ہی ہے ، یہاں   تک کہ اگر دوبارہمکّۂ مکرّمہ زادَھُمَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْمًا آجائے پھر بھی مسافِر رہے گا ، اس کو ’’نماز قَصر ‘‘ہی ادا کرنی ہو گی  ۔ ہاں   دوبارہ VISA  مل جانے کی صورت میں   اِقامت کی نیّت کی جا سکتی ہے ۔   

 حرم میں   کبوتروں   ، ٹِڈیوں   کو اڑانا ، ستانا

  سُوال : حرم کے کبوتروں   اور ٹِڈّیوں  کو خوامخواہ اُڑا ناکیسا؟

 جواب : اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  : حرم کے کبوتر اُڑانا منع ہے ۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ص۲۰۸)

سُوال : حرم کے کبوتروں   اور ٹِڈّیوں  ( تِرِڈّی) کو ستانا کیسا؟

جواب : حرام ہے ۔   صَدرُالشَّریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  : حرم کے جانور کو شکار کرنا یا اُسے کسی طرح اِیذا دینا سب کو حرام ہے ۔  مُحرِم اور غیر مُحرِم دونوں   اس حکم میں   یکساں   ہیں  ۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص۱۱۸۶)

 

Index