اِس کی کثرت کیجئے اور دُرُود و سلام عرض کیجئے {۹} پنجگانہ یا کم از کم صبح ، شام مُواجَہَہ شریف میں عرضِ سلام کے لیے حاضر ہوں {۱۰} شہر میں خواہ شہر سے باہَر جہاں کہیں گنبدِ مبارَک پر نظر پڑے ، فوراً دست بستہ اُدھر منہ کرکے صلوٰۃُ و سلام عرض کیجئے ، بے اِس کے ہرگز نہ گزریئے کہ خلافِ ادب ہے {۱۱} حتَّی الوسع کوشِش کیجئے کہ مسجِد اوّل یعنی حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں جتنی تھی اُس میں نَماز پڑھئے اور اُس کی مِقدار100 ہاتھ طُول (لمبائی) اور100ہاتھ عرض (چوڑائی)(یعنی تقریباً50×50گز)ہے اگرچِہ بعد میں کچھ اضافہ ہوا ہے ، اُس(یعنی اضافہ شدہ حصّے ) میں نَماز پڑھنا بھی مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی میں پڑھنا ہے {۱۲} روضۂ انور کا نہ طواف کیجئے ، نہ سجدہ، نہ اتنا جُھکنا کہ رُکوع کے برابر ہو ۔ رَسُول اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم اُن کی اِطاعت میں ہے ۔ (ماخوذاًبہارِ شریعت ج اول ص۱۲۲۷تا ۱۲۲۸)
عالمِ وَجد میں رَقصاں مِرا پَر پَر ہوتا
کاش! میں گنبدِ خضرا کا کبوتر ہوتا
جالی مبارک کے روبروپڑھنے کاورد
جوکوئی حُضورِ اَکرَم نورِ مُجسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبرِمُعَظَّم کے رُوبَرُو کھڑا ہوکر یہ آیت شریفہ ایک بارپڑھے :
{ اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)}پھر70 مرتبہ یہ عرض کرے : صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ وَسَلَّمَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ فِرِشتہ اِس کے جواب میں یوں کہتا ہے : اے فُلاں !تجھ پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا سلام ہو ۔ پھرفِرِشتہ اُس کے لئے دُعا کرتا ہے : یااللہ عَزَّوَجَلَّ!اِس کی کوئی حاجَت ایسی نہ رہے جس میں یہ ناکام ہو ۔ (اَلْمَواہِبُ اللَّدُنِّیَۃ ج۳ص۴۱۲)
دعا کیلئے جالی مبارک کو پیٹھ مت کیجئے
جب جب سنہری جالیوں کے رُو برو حاضِری کی سعادت ملے اِدھر اُدھر ہرگز نہ دیکھئے اور خاص کر جالی شریف کے اندر جھانکناتوبَہُت بڑی جُرأت (جُرْ ۔ اَتْ) ہے ۔ قبلے کی طر ف پیٹھ کئے کم از کم چار ہاتھ(یعنی تقریباً دو گز) جالیمُبارَک سے دُور کھڑے رہئے اورمُواجَھَہ شریف کی طرف رُخ کر کے سلام عرض کیجئے ، دُعا بھی مُواجَھَہ شریف ہی کی طرف رُخ کئے مانگئے ۔ بعض لوگ وہاں دُعا مانگنے کے لئے کعبے کی طرف مُنہ کر نے کو کہتے ہیں ، اُن کی باتوں میں آکر ہرگز ہرگز سُنہری جالیوں کی طرف آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یعنی کعبے کے کعبے کو پیٹھ مت کیجئے ۔
کعبے کی عظمتوں کا مُنکر نہیں ہوں لیکن
کعبے کا بھی ہے کعبہ میٹھے نبی کا روضہ(وسائلِ بخشش ص ۲۹۸)
جب جب آپمسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں داخِل ہوں تو اِعتِکاف کی نیّت کرنا نہ بھولئے ، اِس طرح ہر بار آپ کو’’ پچاس ہزار نفلی اِعتِکاف‘‘ کا ثواب ملے گا اور ضِمناً کھانا، پینا، اِفطار کرنا وغیرہ بھی جائز ہو جائے گا ۔ اِعتِکاف کی نیَّت اِس طرح کیجئے :
نَوَیْتُ سُنَّتَ الْاِعْتِکاف ([1]) ترجَمہ : میں نے سُنَّتِ اِعتِکاف کی نیَّت کی ۔
خُصُوصاً چالیس نَمازیں بلکہ تمام فرض نَمازیں مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی میں ادا کیجئے کہ تاجدارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے : ’’جو شخص وُضو کر کے میری مسجِدمیں نَماز پڑھنے کے اِرادے سے نکلے یہ اُس کے لئے ایک حج کے برابر ہے ۔ ‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ ص۴۹۹ حدیث۴۱۹۱)
وہاں جو بھی سلام عرض کرنا ہے ، وہ زَبانی یاد کر لینا مناسِب ہے ، کتاب سے دیکھ کر سلام اور دُعا کے صیغے وہاں پڑھنا عجیب سا لگتا ہے کیونکہ سرورِ کائنات ، شَہَنْشاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جسمانی حیات کے ساتھ حُجرۂ مُبارَکہ میں قبلے کی طرف رُخ کئے تشریف فرما ہیں اور ہمارے دِلوں تک کے خَطرات(یعنی خیالات) سے آگاہ ہیں ۔ اِس تَصَوُّرکے قائم ہوجانے کے بعد کتاب سے دیکھ کر سلام وغیرہ عرض کرنا بَظاہِر بھی نامُناسب معلوم ہوتاہے ۔ مَثَلاً آپ کے پیر صاحِب آپ کے سامنے موجود ہوں تو آپ اُن کوکتاب سے پڑھ پڑھ کر سلام عرض کریں گے یا زَبانی ہی ’’یاحضرت السلام علیکم ‘‘ کہیں گے ؟ اُمّید ہے آپ میرا مُدَّعا سمجھ گئے ہوں گے ۔ یاد رکھئے !بارگاہِ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں بنے سجے اَلفاظ نہیں بلکہ دِل دیکھے جاتے ہیں ۔
مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً ۱۴۰۵ھ کی حاضِری میں سگِ مدینہ عفی عنہ کو ایک پیر بھائی مرحوم حاجی اسمٰعیل نے یہ واقِعہ سُنایا تھا : دو یا تین سال پہلے تقریباً85 سالہ ایکحَجَّن بی سنہری جالیوں کے رُو بروسلام عرض کرنے حاضِر ہوئیں اور اپنے ٹوٹے پھوٹے اَلفاظ میں صلوٰۃ وسلام عرض کرنا شُروع کیا، ناگاہ ایک خاتون پر نظر پڑی جوکتاب سے دیکھ دیکھ کر نہایت عُمدہ اَلقاب کے
[1] بابُ السلام اور بابُ الرحمۃ سے مسجد نبوی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں داخل ہوں تو سامنے والے سُتون مبارک پر غور سے دیکھیں گے تو سُنہری حرفوں سے ’’نَوَیْتُ سُنَّتَ الْاِعْتِکَاف ‘‘ اُبھرا ہوا نظر آ ئے گا جو کہ عاشقانِ رسول کی یاد دہانی کے لئے ہے ۔