حج ہو یا عُمرہ اِحرام باندھنے کا طریقہ دونوں کا ایک ہی ہے ۔ ہاں نیَّت اور اُس کے اَلفاظ میں تھوڑاسافرق ہے ۔ نیَّت کابیاناِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّآگے آرہا ہے ۔ پہلے اِحرام باندھنے کا طریقہ مُلاحَظہ فرمایئے : {۱}ناخُن تَراشئے {۲}بغل اور ناف کے نیچے کے بال دُور کیجئے بلکہ پیچھے کے بال بھی صاف کرلیجئے {۳}مِسْواک کیجئے {۴}وُضو کیجئے {۵}خوب اچھی طرح مَل کے غُسل کیجئے {۶}جسم اوراِحرام کی چادروں پر خوشبو لگایئے کہ یہ سُنَّت ہے ، کپڑوں پرایسی خوشبو (مَثَلاً خُشک عَنبر وغیرہ)نہ لگایئے جس کاجِرم (یعنی تَہ ) جَم جائے {۷}اِسلامی بھائی سِلے ہوئے کپڑے اُتار کر ایک نئی یا دُھلی ہوئی سفید چادر اوڑھیں اور ایسی ہی چادر کا تہبند باندھیں ۔ (تہبند کے لئے لٹھا اور اَوڑھنے کے لئے تولیا ہوتو سَہولت رہتی ہے ، تہبند کا کپڑا موٹا لیجئے تاکہ بدن کی رنگت نہ چمکے اور تولیا بھی قدرے بڑی سائز کا ہو تواچّھا){۸}پاسپورٹ یارقم وغیرہ رکھنے کے لئے جیب والا بیلٹ چاہیں تو باندھ سکتے ہیں ۔ ریگزین کا بَیلٹ اکثر پَھٹ جاتا ہے ، آگے کی طرف زِپ(zip)والا بٹوا لگا ہوا نائیلون( nylon) یا چمڑے کا بیلٹ کافی مضبوط ہوتا اور برسوں کام دے سکتا ہے ۔
اِسلامی بہنیں حسبِ معمول سِلے ہوئے کپڑے پہنیں ، دستانے اور موزے بھی پہن سکتی ہیں ، وہ سَر بھی ڈھانپیں مگر چہرے پر چادر نہیں اَوڑھ سکتیں ، غیر مَردوں سے چہرہ چُھپانے کے لئے ہاتھ کا پنکھا یا کوئی کتاب وغیرہ سے ضَرورتاً آڑکرلیں ۔ اِحرام میں عورَتوں کو کسی ایسی چیز سے مُنہ چھپانا جو چہرے سے چِپٹی ہو حرام ہے ۔
اگر مکروہ وَقْت نہ ہوتو دو رَکْعَت نَماز نَفل بہ نیَّتِ اِحرام (مرد بھی سَر ڈھانپ کر) پڑھیں ، بہتر یہ ہے کہ پہلی رَکْعَت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَۙ اورر دوسری رَکْعَت میں قُلْ ھُوَ اللّٰہ شریف پڑھیں ۔
اب اِسلامی بھائی سَر ننگا کر دیں اور اِسلامی بہنیں سَر پر بدستور چادر اوڑھے رہیں اور عُمرے کی اِس طرح نیَّت کریں :
اَللّٰهُمَّ اِ نِّیْۤ اُرِيْدُ الْعُمْرَةَ فَيَسِّرْ هَا لِیْ وَ تَقَبَّلْهَا مِنِّیْ وَ اَعِنِّیْ عَلَيْهَا وَ بَارِكْ لِیْ فِيْهَا ط نَوَيْتُ الْعُمْرَةَ وَ اَحْرَمْتُ بِهَا لِلّٰهِ تَعَالٰیط
اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں عُمرے کا اِرادہ کرتا ہوں میرے لئے اِسے آسان اور اِسے میری طرف سے قَبول فرمااور اِسے (ادا کرنے میں ) میری مدد فرما اور اِسے میرے لئے بابَرَکت فرما ۔ میں نے عُمرے کی نیَّت کی اور اللہ عَزَّ وَجَلَّکے لئے اِس کا اِحرام باندھا ۔
نیَّت کے بعد کم اَز کم ایک بار لَبَّیْک کہنا لازِمی ہے اور تین بار کہنا افضل ۔ لَبَّیْک یہ ہے :
لَبَّیْكَ ط اَللّٰھُمَّ لَبَّیْكَ ط لَبَّیْكَ لَا شَرِیْكَ لَكَ لَبَّیْكَ ط اِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَۃَ لَكَ وَ الْمُلْكَ ط لَا شَرِیْكَ لَكَط
میں حاضِر ہوں ، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں حاضِر ہوں ، (ہاں )میں حاضِر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضِر ہوں ، بے شک تمام خوبیاں اور نعمتیں تیرے لئے ہیں اور تیرا ہی ملک بھی، تیرا کوئی شریک نہیں ۔
اے مدینے کے مسافِرو! آپ کا اِحرام شُروع ہوگیا، اب یہلَبَّیْک ہی آپ کاوَظیفہ اور وِرد ہے ، اُٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے اِس کا خوب وِرد کیجئے ۔
دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ {1}جب لَبَّیْککہنے والالَبَّیْک کہتا ہے تو اسے خوشخبری دی جاتی ہے ۔ عَرْض کی گئی : یارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا جنَّت کی خوشخبری دی جاتی ہے ؟ اِرشاد فرمایا : ’’ہاں ‘‘ (مُعْجَم اَ وْسَط ج ۵ ص۴۱۰ حدیث ۷۷۷۹) {2} جب مسلمان ’’لَبَّیْک ‘‘کہتاہے تو اُس کے دائیں اور بائیں زمین کے آخِری سِرے تک جو بھی پتھر، دَرَخت اور ڈھیلا ہے وہ سب لَبَّیْک کہتے ہیں ۔ ( تِرْمِذیج۲ ص۲۲۶ حدیث۸۲۹)
معنی پر نظر رکھتے ہوئے لَبَّیْکپڑھئے
اِدھراُدھر دیکھتے ہوئے بے دلی سے پڑھنے کے بجائے نہایت خُشوع وخُضوع کے ساتھ معنیٰ پر نظر رکھتے ہوئے لَبَّیْک پڑھنا مناسِب ہے ۔ اِحْرام باندھنے والالَبَّیْک کہتے وَقْت اپنے پیارے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے مُخاطِب ہوتا ہے اور عرض کرتاہے : ’’لَبَّیْک ‘‘یعنی میں حاضر ہوں ، اپنے ماں باپ کواگر کوئی یِہی الفاظ کہے تویقینا توجُّہ سے کہے گا ، پھر اپنے پَرورْدَگارعَزَّوَجَلَّ سے عرض و مَعروض میں کتنی توجُّہ ہونی چاہئے یہ ہر ذِی شُعُور سمجھ سکتا ہے ۔ اسی بِنا پر حضرت ِسیِّدُناعلّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِیفرماتے ہیں : ایک فرد لَبَّیْککے الفاظ پڑھائے اور دوسرے اُس کے پیچھے پیچھے پڑھیں یہ مُستَحب نہیں ۔ بلکہ ہرفَرْد خود تَلْبِیہ پڑھے ۔ (اَلْمَسْلَکُ الْمُتَقَسِّط لِلقاریص۱۰۳)
لَبَّیْککہنے کے بعد کی ایک سنت
لَبَّیْکسے فارغ ہونے کے بعد دُعا مانگنا سُنَّت ہے ، جیسا کہ حدیثِ مُبارَک میں ہے کہ تاجدارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب لَبَّیْک سے فارِغ ہوتے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے اُس کی خوشنودی اور جنَّت کا سُوال کرتے اور جہنَّم سے پناہ مانگتے ۔ (مُسنَد اِمام شافعیص۱۲۳) یقیناً ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ خو ش ہے ، بِلاشُبہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قَطْعی جنَّتی بلکہ بَعَطائے الٰہی عَزَّ وَجَلَّ مالِکِ جنَّت ہیں مگر یہ سب دُعائیں دیگر بَہُت ساری حکمتوں کے ساتھ ساتھ اُمّت کی تعلیم کے لیے بھی ہیں کہ ہم بھی سنَّت سمجھ کر دُعا مانگ لیا کریں ۔