اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
کرامات شیرِ خداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم
شیطٰن لاکھ سُستی دلائے یہ رِسالہ اوّل تا آخِر پڑھ لیجئے۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ ثواب ومعلومات کے ساتھ ساتھ حضرتِ شیرِ خدا سے اُلفت وعقیدت کا جذبہ دل میں بڑھتا محسوس فرمائیں گے۔
مولٰی علی نے خالی ہتھیلی پر دم کیا اور۔۔۔۔
ایک بار کسی بھکا ری نے کُفّار سے سُو ال کیا، اُنہوں نے مذاقاً امیرُ الْمُؤْمِنِین حضرتِ سیِّدُنا مولیٰ مُشکل کُشا، علیُّ الْمُرتَضٰی، شیرِخداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے پاس بھیج دیا جو کہ سا منے تشریف فرما تھے ۔ اُس نے حا ضِر ہو کر دستِ سُوال دراز کیا، آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے 10 بار دُرُود شریف پڑھ کر اُس کی ہتھیلی پر دم کر دیا اور فرمایا: مُٹّھی بند کر لو اور جن لوگوں نے بھیجا ہے اُن کے سامنے جا کر کھول دو۔ (کُفّار ہنس رہے تھے کہ خالی پھو نک مارنے سے کیا ہوتا ہے! ) مگر جب سائل نے اُن کے سامنے جاکر مٹّھی کھولی تو اُس میں ایک دِینار تھا! یہ کر امت دیکھ کر کئی کافِر مسلمان ہو گئے۔ (راحت القلوب ص۱۴۲)
وِرد جس نے کیا دُرود شریف اور دل سے پڑھا دُرود شریف
حاجتیں سب رَواہوئیں اُس کی ہے عَجَب کیمیا دُرُود شریف
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ایک حبشی غلام جو کہ امیرُالْمُؤمِنِین حیدرِ کرَّار، صاحِبِ ذُوالْفِقار ، حَسنَینِ کریمَین کے والدِ بُزُرگوار ، حضرت مولا مُشکلکشا علیُّ المُرتَضٰیشیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے بَہُت مَحَبَّت کرتا تھا ، شامتِ اعمال سے اُس نے ایک مرتبہ چوری کرلی۔ لوگوں نے اُس کو پکڑ کر دربارِخِلافت میں پیش کردیا اورغلام نے اپنے جُرم کا اِقرار بھی کر لیا ۔ امیرُ الْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حُکمِ شَرْعی نافِذ کرتے ہوئے اُس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ جب وہ اپنے گھر کو روانہ ہوا تو راستہ میں حضرت سَلمان فارسیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اوراِبنُ الکَوّاءرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے ملاقات ہوگئی۔ ابن الکَوّاءنے پوچھا: تمہارا ہاتھ کس نے کاٹا ؟ تو غلام نے کہا : ’’ امیرُ الْمُؤمِنِین و یَعسُوبُ المسلمین وزَوجِ بتول (کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) نے ۔ ‘‘ ابن الکَوّاءنے حیرت سے کہا : ’’ انہوں نے تمہارا ہاتھ کاٹ ڈالاپھر بھی تم اِس قَدَراِعزازواِکرام کے ساتھ اُنکا نام لیتے ہو! ‘‘ غلام نے کہا: ’’ میں ان کی تعریف کیوں نہ کروں ! انہوں نے حق پر میرا ہاتھ کاٹا اور مجھے عذابِ جہنَّم سے بچالیا۔ ‘‘ حضرتِ سیِّدُناسلمان فارسیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دونوں کی گفتگو سنی اور حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے اِس کا تَذکِرہ کیا تو آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے اُس غلام کوبُلوا یا اوراُس کا کٹا ہوا ہاتھ کلائی پر رکھ کر رومال سے چُھپا دیاپھر کچھ پڑھنا شُروع کردیا، اِتنے میں ایک غیبی آواز آئی : ’’ کپڑا ہٹاؤ۔ ‘‘ جب لوگوں نے کپڑا ہٹا یا تو غلام کا کٹا ہوا ہاتھ کلائی سے اِس طرح جُڑ گیا تھا کہ کہیں کٹنے کا نشان تک نہیں تھا! (تفسیر کبیرج۷ص۴۳۴)
اے شبِ ہجرت بجائے مصطَفٰے بَر رَختِ خواب
اے دمِ شدّت فِدائے مصطَفٰے امداد کُن (حدائق بخشش شریف)