مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : یعنی تم رشتے میں بھی میرے چچا زاد بھائی ہو اور اب اِس عَقْدِ مُؤاخات (م ُ ۔آ۔خات یعنی بھائی چارے کے قول و قرار) میں بھی تم کو اپنا بھائی بنایا اور دنیا و آخِرت میں اپنا بھائی بنایا۔سُبْحٰنَ اللہ (عَزَّوَجَلَّ) ! مگر خیال رہے کہ اس کے باوُجُود کبھی حضرتِ سیِّدُنا علی (کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) نے حُضُور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو بھائی کہہ کر نہ پکارا (جب کبھی پکارا) تو ’’ یَا رَسُوْلَ اللہ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ‘‘ کہہ کر (ہی پکارا) ، پھر کسی اَیرے غَیرے کو بھائی کہنے کا حق کیسے ہوسکتا ہے! (مراٰۃ المناجیح ج ۸ ص۴۱۸)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے کسی نے سُوال کیا کہ آپ کو رَسُوْل اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کتنی مَحَبَّت ہے؟ فرمایا: خدا عَزَّوَجَلَّکی قسم! حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے نزدیک اپنے مال وآل ، والدین اورسخت پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی بڑھ کر محبوب ( یعنی پیارے) ہیں۔ (الشفاء ج۲ص۲۲)
حضرتِ سیِّدُنا ابی صالِح رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے مروی ہے ، ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا امیرِمُعاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرتِ سیِّدُنا ضِرَار رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے فرمایا: ’’ میرے سامنے حضرتِ سیِّدُنا علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے اَوصاف (یعنی خوبیاں ) بیان کیجئے۔ ‘‘ حضرتِ سیِّدُنا ضِرار رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے عرض کی: امیرُالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے عِلم وعِرفان کا اندازہ نہیں لگا یا جا سکتا ، آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مُعامَلے اور اُس کے دین کی حمایت میں مضبوط اِرادے رکھتے ، فیصلہ کُن بات کرتے اور انتہائی عَدل و اِنصاف سے کام لیتے ، آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی ذات مَنبعِ عِلم وحکمت تھی ، جب کلام (یعنی گفتگو) کرتے تو دَہَنِ مبارَک سے حکمت ودانائی کے پھول جَھڑتے ، دنیا اور اس کی رنگینیوں سے وَحْشت کھاتے ، رات کے اندھیرے میں (عبادتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ سے) مَسرور (خوش) ہوتے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم بَہُت زیادہ رونے والے ، دُور اندیش اور غمزدہ تھے ، اپنے نفس کامُحاسَبہ کرتے ، کُھرْدَرا اور موٹا لباس پسند فرماتے اور موٹی روٹی کھاتے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! رُعْب ودبدبہ ایسا تھا کہ ہم میں سے ہرایک آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے کلام (یعنی بات) کرتے ہو ئے ڈرتا تھا ، حالانکہ جب ہم حاضِر ہوتے تو ملنے میں آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم خود پہل کرتے اور جب ہم سُوال کرتے تو جواب ارشاد فرماتے، اور ہماری دعوت قَبول فرماتے ۔ جب مسکراتے تو دندانِ مبارَک ایسے معلوم ہوتے جیسے موتیوں کی لَڑی، آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم پرہیزگاروں کااحتِرام کرتے ، مِسکینوں سے مَحَبَّت فرماتے، کسی طا قتوریا صاحِبِ ثَروَت (یعنی سرمایہ دار) کو اُس کی باطِل (یعنی بے کار) آرزو میں اُمّید نہ دلاتے ، کو ئی بھی کمزور شخص آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی عدالت سے مایوس نہ ہوتا بلکہ اُسے اُمّید ہوتی کہ مجھے یہا ں انصاف ضَرور ملے گا۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں نے دیکھا کہ جب رات آتی تو آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اپنی داڑھی مبارک پکڑ کر زارو قِطا ر روتے اور زخمی شخص کی طر ح تڑپتے ۔میں نے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’ اے دنیا ! آیا تُو نے مجھ سے منہ موڑلیا ہے یا ابھی تک میری مُشتاق (یعنی میرا شوق رکھتی ) ہے ؟ اے دھوکے باز دنیا! جا، تو کسی او ر کو دھوکا دے ، میں تجھے تین طَلَاقیں دے چکاہوں اب اِس میں ہرگزرُجوع نہیں ، تیری عمر بَہُت کم اور تیری آسائشیں اور نعمتیں انتہائی حقیر ہیں اور تیرے نقصانا ت بَہُت زیادہ ہیں ، ہائے ! سفرِ (آخرت) نہایت طویل ہے ، زادِ راہ بَہُت قلیل (یعنی تھوڑا سا) اور راستہ انتہائی خطرناک اور پیچ دار ہے ۔ ‘‘ یہ سن کر حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعاوِیہ رَضِیَ