(تفسیرِطَبری ج۶ص ۶۱۸) اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاوپر بیان کردہ آیت کے حصّے کا ترجَمہ یوں فرماتے ہیں : ’’ اور اللہ کے سِوا بندَگی نہ کر۔ ‘‘ دوسری آیات اس معنٰی کی تائید کرتی ہیں مَثَلاً اللہ تَعَالٰیفرماتا ہے:
وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۘ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۫- (پ۲۰، القصص:۸۸)
ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہکے ساتھ دوسرے خدا کو نہ پوج اس کے سوا کوئی خدا نہیں ۔
معلوم ہوا کہ غیرِ خدا کو خدا سمجھ کر پکارنا شرک ہے کیونکہ یہ غیر خدا کی عبادت ہے ۔ ( مزید تفصیلات کیلئے حضرت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنّان کی کتاب ’’ علم القرآن ‘‘ کا مُطالعہ فرمایئے)
اللہ کی عطا سے ہیں مصطفٰے مددگار
ہیں انبیاء مدد پر ہیں اولیاء مددگار
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سُوال (17) : مُشرِکِین بُتو ں سے اور آپ نبیوں اورولیوں سے مددمانگتے ہیں ، کیا دونوں شرک میں برابر نہ ہوئے؟
جواب:مَعاذاللہ (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ) دونوں کا مُعامَلہ ہرگز ایک جیسانہیں ، مُشرِکین کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بُتوںکو اُلُوہِیَّت دے دی (یعنی معبودبنادیا) ہے ۔نیز وہ بتو ں وغیرہ کو سفارشی اور وسیلہ سمجھتے ہیں اور بُت فی الحقیقت ایسے نہیں ہیں۔ اَلْحَمْدُ للہ عَزَّوَجَلَّہم مسلمان کسی مُقَرّب سے مُقَرّب حتّٰی کہ محبوبِ رب ، تاجدارِعرب ، سراپا لائقِ تعظیم وادب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بھی اُلُوہِیَّت ( یعنی مستحقِ عبادت ہونے) کے قائل نہیں ہیں ، ہم تو انبیاءِ کرامعَلَیْہمُ الصّٰلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءِ عِظام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بندہ اور اعزازی طور پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اِذن وعطا (یعنی اجازت وعنایت) سے شفیع و وسیلہ اورحاجت روا ومشکلکشامانتے ہیں۔
مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنّان فرماتے ہیں: مُشرکین کا اپنے بتوں سے مدد مانگنا یہ بالکل شرک ہے۔ (اور یہ شرک ہونا) اس لئے کہ وہ ان بُتوں میں خُدائی اثر اور ان کو چَھوٹا خُدامان کرمدد مانگتے ہیں اور اِسی لئے ان کو اِلٰہ یا شُرکاء (یعنی عبادت کے لائق یا اللہ کے شریک) کہتے ہیں یعنی ان بُتوں کو اللہ کا بندہ اور پھر اُلُوہِیَّت کا حصّے دار مانتے ہیں۔ (جاء َالحق ص۱۷۱)
شرک کا معنیٰ ہے: اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی کو واجِبُ الوُجُود یامستحقِ عبادت ( عبادت کے لائق ) جاننا یعنیاُلُوہِیَّت میں دوسرے کو شریک کرنا اور یہ کفر کی سب سے بد ترین قسم ہے۔ اس کے سوا کوئی بات کیسی ہی شدید کفر ہو حقیقۃً شرک نہیں۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص۱۸۳) میرے آقااعلیٰ حضرت امامِ اہلِسنّت مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : ’’ آدَمی حقیقۃً کسی بات سے مُشرِک نہیں ہوتا جب تک غیرِ خدا کو معبود (یعنی عبادت کے لائق) یا مستقل بالذّات ( یعنی اپنی ذات میں غیرمحتاج۔مثلاً یہ عقیدہ رکھنا کہ اس کا علم ذاتی ہے) وواجبُ الوُجُود نہ جانے۔ ‘‘ (فتاوٰی رضویہ ج ۲۱ص۱۳۱ ) شَرحِ عقائد میں ہے : ’’ شرک ‘‘ ، اللہ تَعَالٰی کی اُلُوہِیَّت میں کسی کو شریک جاننا جیسے مجوسی (یعنی آتَش پرست) اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سواواجب الوجود مانتے ہیں یا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کسی کو عبادت کے لائق جاننا جیسے بتوں کے پجاری۔ (شرح عقائد نسفیہ ص۲۰۱)
میں قرباں اِس ادائے دستگیری پر مِرے آقا
مدد کو آگئے جب بھی پکارا یا رسولَ اللہ