بے یار ومدگار جنہیں کوئی نہ پوچھے
ایسوں کا تجھے یارو مددگار بنایا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سُوال (8) :مان لیا کہ زندہ ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں جنگل میں بندوں کوپکارنا بھی سمجھ میں آ گیاکہ جنگل میں تو آج کل پولیس کی موبائل بھی مدد کیلئے بسا اوقات دستیاب ہو جاتی ہے اگرچِہ حدیثِ پاک میں پولیس مُرا د نہیں تاہم آدمی ان سے مدد تو حاصِل کر سکتا ہے اور موبائل فون کے ذَرِیعے بھی کسی کو مدد کیلئے بُلا سکتا ہے۔مگر ’’ مُردے ‘‘ سے کیسے مدد مانگی جائے؟
جواب:: جو واقِعی مُردہ ہواُس سے بے شک مدد نہ مانگی جائے مگرانبیا ء واولیاء تو پردہ فرمانے کے بعد بھی زندہ ہوتے ہیں اوریوں ہم زندوں ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔ یہ حضرات زندہ ہوتے ہیں ان کے دلائل مُلا حَظہ ہوں :
انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامزندہ ہیں
انبیا ءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامپرمَحْض ایک آن موت طاری ہوتی ہے پھر فوراً اُن کو ویسی ہی حیات یعنی زندَگی عطا فرمادی جاتی ہے۔جیسی دُنیا میں تھی۔ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکی حیات (عالَم برزَخ کی زندَگی) روحانی، جسمانی، دنیاوی ہے ، (یہ حَضرا ت انبیاء) بعینہٖ اُسی طرح زندہ ہوتے ہیں ، جس طرح دُنیامیں تھے (فتاوٰی رضویہ ج ۲۹ص۵۴۵) سرکارِ مدینۂ منوَّرہ، سردارِ مکۂ مکرَّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ ذیشان ہے: اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِِ اَنْ تَــــأْکُلَ اَجْسَادَ الْانبیاءِ فَنَبِیُّ اللہِ حَیٌّ یُّرْزَقُ یعنی اللہ تَعَالٰینے انبیا ء کے اَجسام (یعنی جِسموں ) کو مٹّی پر حرام فرمادیا ہے، اللہکے نبی زندہ رَہتے ہیں انہیں رِزْق دیا جاتا ہے۔ (ابن ماجہ ج۲ص۲۹۱ حدیث۱۶۳۷) معلوم ہوا ، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام زندہ ہیں نیز صحیح احادیثِ مبارَکہ سے یہ بھی ثابِت ہے کہ حج ادا فرماتے اوراپنے اپنے مَزاروں میں نَمازیں بھی پڑھتے ہیں ، چُنانچِہ حضرت سیِّدُنا اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: اَلْانبیاء اَحْیَاء ٌ فِی قُبُورِہِمْ یُصَلُّونَ ‘‘ یعنی انبیا ء اپنی قبروں میں زندہ ہیں، نماز پڑھتے ہیں ۔ (مُسْنَدُ اَبِیْ یَعْلٰی ج۳ ص۲۱۶ حدیث۳۴۱۲)
حضرت سیِّدُناامام مُناوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نے فرمایا: ’’ یہ حدیث صحیح ہے ۔ ‘‘ (فیضُ القدیرج۳ ص۲۳۹) عُلَماءِ کرامرَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں کہ بعض اوقات انسان مُکلَّف (پابند) نہیں ہوتا پھر بھی لُطف اندوز ہونے کے لئے اعمال ادا کرتا ہے ، جیسا کہ انبیاءِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَامکا اپنی مبارَک قبروں میں نماز پڑھنا حالانکہ (صِرف دنیا دارُالعمل ہے) آخِرت دارُالعمل (نیکیاں کرنے کی جگہ) نہیں۔
حضرتِ سیِّدُنا موسٰیعَلَیْہِ السَّلاممزار میں نَماز پڑھ رہے تھے
حضرتِ سیِّدُنا اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: شبِ مِعراج (حضر تِ ) موسیٰ (عَلَیْہِ السَّلام) کے پاس سے ہمارا گزر ہوا وہ سُرْخ ٹیلے کے پاس اپنی قبرمیں نَماز پڑھ رہے تھے ۔ (مُسلم ص۱۲۹۳ حدیث ۲۳۷۴)
انبیاء کو بھی اَجَل آنی ہے مگر ایسی کہ فَقَط ’’ آنی ‘‘ ہے
پھر اُسی آن کے بعد اُن کی حیات مِثْلِ سابِق وُہی جسمانی ہے
روح تو سب کی ہے زندہ اُن کا
جسمِ پُرنور بھی روحانی ہے (حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد