تو ہرگز شِرک نہیں اوریہی ہماراعقیدہ ہے ۔
بَہَرحال سورۃُ الفاتحہ کی آیتِ مبارکہ (اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ یعنیہم تجھی سے مدد چاہیں ) حق ہے، مگر شیطان کا بُرا ہو کہ یہ لوگوں کو وسوسے ڈال کر غَلَط فہمیوں کا شکار کر دیتا ہے۔ غورفرمایئے! آیتِ مبارکہ میں زندہ مُردہ وغیرہ کی تخصیص کئے بغیر مُطْلقًا یعنی ہر حال میں اللہ تَعَالٰی کے سوا دوسرے سے مد د مانگنے کی نفی یعنی انکار کیا گیا ہے۔آیتِ مبارکہ کے ظاہِری ولفظی معنیٰ کے اعتِبار سے جو کہ ’’ اہلِ وَسوَسہ ‘‘ نے سمجھا ہے کوئی دوسرا تو ٹھیک یہ خود بھی ’’ شرک ‘‘ سے نہیں بچ سکتے مَثَلاً وزْن دار گٹھری زمین پر رکھی ہے اٹھا نہیں پا رہے ، کسی کو آواز دے کر کہا: برائے مہربانی! اٹھانے میں ذرا میری مدد کر دیجئے تا کہ سر پررکھ لوں۔ ‘‘ اس وسوسے کے مطابِق یہ شرْک ہوا یا نہیں ؟ ضَرور ہوا۔ اِس طرح کی ہزاروں مثالیں دی جا سکتی ہیں ، بس چاروں طرف غیرِ خدا کی امدادوں کے نظّارے ہیں۔مَثَلاً اِنْفاق فِی سبیلِ اللہ یعنی راہِ خدا میں خَرْچ کرنے کا بکثرت جگہوں پر اصل مُدَّعا ہی ’’ باہمی امداد ‘‘ ہے! اِس میں صَدَقہ وخیرات ، فِطرہ وزکوٰۃ، مساجدو مدارِس کیلئے چندہ و عَطِیّات ، قربانی کی کھالوں کے مطالَبات، سماجی اِدارات ، وغیرہ وغیرہ سب کا مَفاد اِمداد ، اِمداد اور اِمداد ہی تو ہے ! مزید آگے بڑھئے تو مظلوموں کی مدد کیلئے عدالت ہے تو مریضوں کی امداد کیلئے طِبابت ، اندرونِ مُلک کے باشندوں کی مدد کیلئے پولیس کی نِظامت ہے تو بَیرونی دشمنوں سے حفاظت کیلئے فوجی طاقت ، اولاد کی پرورش میں مدد کیلئے ماں باپ کی ضرورت ہے تو ان کی تعلیم و تربیّت کیلئے تعلیم گاہ کی حاجت ۔اَلغَرَض زندَگی میں قد م قدم پر غیرُ اللہ کی مَدَد و حمایت کی ضرورت ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی تکفین و تدفین بِغیر غیرُ اللہ کی مدد کے ممکن نہیں ، پھر تا قیامت ایصالِ ثواب کے ذَرِیعے مدد کی حاجت ہے اور آخِرت میں بھی سب سے اہم مدد کی ضَرورت ہے یعنی پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت۔ یہ سب غیرُاللہ کی مددیں ہی ہیں ؎
آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قِیامت میں اگر مان گیا (حدائق بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
غیرِ خدا سے مدد مانگنے کی احادیثِ مبارَکہ میں ترغیب
سُوال (5) :غیرُ اللہ سے مدد مانگنے کی ترغیب پر کچھ احادیثِ مبارکہ بھی بیان کر دیجئے۔
جواب: غیرِ خدا سے مدد مانگنے کی ترغیب سے مُتعلِّق دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مُلاحَظہ ہوں :{۱}میرے رَحْم دل اُمّتیوں سے حاجتیں مانگو رزْق پاؤگے۔(اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطی ص۷۲حدیث ۱۱۰۶) {۲} ’’ بھلائی اوراپنی حاجتیں اچّھے چِہرے والوں سے مانگو۔ ‘‘ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرانی ج۱۱ص۶۷حدیث۱۱۱۱۰ )
اللہ عَزَّوَجَلَّفرماتا ہے: فَضْل میرے رَحْم دل بندوں سے مانگو ان کے دامن میں آرام سے رہوگے کہ میں نے اپنی رحمت ان میں رکھی ہے ۔ (مسندُ الشّہاب ج۱ ص۴۰۶ حدیث۷۰۰)
حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن حُنیَف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے راویت ہے کہ ایک نابینا صَحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بارگاہِ رسالت میں حاضِرہو کر عَرْض کی: اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دُعا کیجئے کہ مجھے عافیَّت دے۔ ارشاد فرمایا: ’’ اگر تو چاہے تو دُعا کروں اور چاہے صَبْر کر اور یہ تیرے لئے بہتر ہے۔ ‘‘ انہوں نے عَرْض کی:حُضُور! دُعا فرمادیجئے ۔ انہیں حکم فرمایا کہ وُضو کرو اوراچّھا وُضو کرو اور دو رَکْعَت نَماز پڑھ کر یہ دُعا پڑھو:اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ