سُوال (2) : مولانا ! مُعاف کیجئے، ابھی آپ نے ’’ مولیٰ علی ‘‘ کہا ، حالانکہ ’’ مولیٰ ‘‘ تو صِرْف اَللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ہی کی ذات ہے۔
جواب: بے شک حقیقی معنوں میں اَللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ہی ’’ مولیٰ ‘‘ ہے مگر مَجازًا (یعنی غیر حقیقی) معنوں میں دوسرے کو ’’ مولیٰ ‘‘ کہنے میں کوئی مضایَقہ نہیں۔آج کل عُلمائے کرام بلکہ عُموماً ہرداڑھی والے کو مولانا کہہ کر مخاطب کیا جاتاہے، کبھی آپ نے ’’ مولانا ‘‘ کے معنیٰ پر بھی غور فرمایا؟ اگر نہیں تو سُن لیجئے ، مولانا کے معنٰی ہیں : ’’ ہمارا مولیٰ ‘‘ دیکھئے ! سُوال میں بھی تو ’’ مولانا ‘‘ کہا گیا ہے! جب عام شخص کو بھی مولانایعنی ’’ ہمارا مولیٰ ‘‘ کہنے میں کوئی وَسوَسہنہیں آتا تو آخِر ’’ مولیٰ علی ‘‘ کہنے میں کیوں وسوسہ آ رہا ہے ! اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط پڑھ کر شیطان کو بھگا دیجئے اور تسلّی رکھئے کہ ’’ مولیٰ علی ‘‘ کہنے میں کوئی حَرج نہیں بلکہ حضرتِ سیِّدُنا علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے ’’ مولیٰ ‘‘ ہونے کی تو حدیثِ پاک میں صَراحت موجود ہے چُنانچِہ سُنئے اور ’’ حُبِّ علی ‘‘ میں سردُھنئے:
جس کا میں مولٰی ہوں اس کے علی بھی مولٰی ہیں
سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاارشاد ہے: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ یعنی جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اُس کے مولیٰ ہیں۔ (تِرمِذی ج۵ص۳۹۸حدیث۳۷۳۳)
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیث پاک کے الفاظ ’’ جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اُس کے مولیٰ ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : مولیٰ کے بَہُت (سے) معنٰی ہیں : دوست، مددگار، آزاد شُدہ غلام، (غلام کو) آزاد کرنے والا مولیٰ۔اِس (حدیثِ پاک میں مولیٰ) کے معنٰی خلیفہ یا بادشاہ نہیں یہاں (مولیٰ) بمعنی دوست (اور) محبوب ہے یا بمعنی مددگار اورواقِعی حضرتِ سیِّدُناعلیُّ الْمُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مسلمانوں کے دوست بھی ہیں ، مددگار بھی، اِس لئے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ’’ مولیٰ علی ‘‘ کہتے ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح ج۸ص۴۲۵) قراٰنِ کریم میں اللہ تَعَالٰی، جبریلِ امین اور نیک مؤمنین کو ’’ مولیٰ ‘‘ کہا گیا ہے ۔ چُنانچہ پارہ 28 سُوْرَۃُ التَّحْرِیْمآیت نمبر4میں ربّ عَزَّ وَجَلَّ فرماتا ہے : فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-ترجَمۂ کنز الایمان:توبے شک اللہ اُن کامدد گارہے اورجبریل اورنیک ایمان والے۔
کہا جس نے یاغوث اَغِثْنی تو دَم میں
ہر آئی مصیبت ٹلی غوثِ اعظم (سامان بخشش)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مفسّرِین کے نزدیک ’’ مولٰی ‘‘ کے معنیٰ
سُوال (3) :آپ نے مولیٰ کے معنیٰ ’’ مددگار ‘‘ لکھے ہیں کیادیگر مُفسّرِین کا بھی اِ س سے اتّفاق ہے؟
جواب:کیوں نہیں ۔مُتَعدِّد تَفاسیر کے حوالے دیئے جا سکتے ہیں نَمُونۃ6 کُتُبِ تفسیر کے نام مُلاحَظہ ہوں جن میں اِس آیتِ مبارکہ میں وارِد لفظ ’’ مولیٰ ‘‘ کے معنیٰ وَلی اور ناصِر ( یعنی مدد گار) لکھے ہیں : (۱) تفسیرطَبَری جلد 12صفحہ154 (۲) تفسیرقُرطُبی جلد 18 صفحہ 143 (۳) تفسیرِکبیرجلد 10صفحہ570 (۴) تفسیرِبَغْوی جلد 4صفحہ337 (۵) تفسیرِ خازِن جلد 4صفحہ286 (۶) تفسیرِ نَسفی صفحہ1257 ۔ اُن چار کتابوں کے نام بھی حاضِر ہیں جن میں آیتِ مبارَکہ کے لفظ ’’ مولیٰ ‘‘ کے معنیٰ ’’ ناصر ‘‘ (یعنی مددگار) کئے گئے ہیں : (۱) تفسیرِجلالین صفحہ465