آ جائے، لوگوں کی زَبانیں ہماری سَخاوت کے ترانے گائیں ، کسی پر اِحسان کیا تو خواہش ہوتی ہے کہ یہ ہمارا خادم بن کر رہے، ہماری تعریفوں کے پُل باندھے حالانکہ قراٰنِ پاک ہمیں احسان نہ جتانے اور اُس کا بدلہ صِرْف اللہ تَعَالٰی کی ذات سے مانگنے کا حکم دے رہاہے۔ جیسا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ پارہ3، سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ کی آیَت نمبر 262 میں اِرشاد فرماتا ہے:
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَاۤ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًىۙ-لَّهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-
ترجَمۂ کنز الایمان:وہ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر دئیے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں اُن کا نیگ (اِنعام) اُن کے ربّ کے پاس ہے۔
صدرُالْاَ فاضِل حضرت علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی اِس آیَت ِ مبارَکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’ اِحْسان رکھنا تو یہ کہ دینے کے بعد دوسروں کے سامنے اظہار کریں کہ ہم نے تیرے ساتھ ایسے ایسے سلوک کئے اور اُس کو مُکدَّر (یعنی غمگین) کریں اور تکلیف دینا یہ کہ اُس کو عار دلائیں (یعنی شرمندہ کریں ) کہ تُونادار تھا، مفلس تھا، مجبور تھا، نکمّا تھا ہم نے تیری خبر گیری کی یا اور طرح دباؤ دیں یہ ممنوع فرمایا گیا۔ ‘‘ (خزائن العرفان) کاش! پیکرِ اِخلاص وصفا، مولیٰ مشکل کُشا حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے صدْقے ہمیں بھی اِخلاص کے ساتھ صدَقہ وخیرات کرنے کا جذبہ وسعادت نصیب ہوجائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
مِرا ہر عمَل بس ترے واسطے ہو
کر اِخلاص ایسا عطا یا الٰہی! (وسائلِ بخشش ص ۷۸)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ظاہِری وباطِنی عُلُوم پر خبردار، صاحِبِ سینۂ پُراَنوار، مولیٰ علی حیدر کرّار کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم (بطورِ تحدیثِ نعمت ) فرماتے ہیں : اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم! میں قراٰنِ کریم کی ہر آیَت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کب اور کہاں نازِل ہوئی۔ بے شک میرے ربّ عَزَّ وَجَلَّنے مجھے سمجھنے والادل اور سُوال کرنے والی زَبان عطا فرمائی ہے۔ (حِلیۃُ الاولیاء ج۱ ص۱۰۸)
دے تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دے دلِ مُرتَضیٰ سوزِ صِدِّیق دے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
امیرُ الْمُؤْمِنِین، مولیٰ مشکل کُشا حضرتِ سیِّدُناعلیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اِرشادفرمایا: ’’ اگر میں چاہوں تو ’’ سُوْرَۃُ الْفَاتِحَۃ ‘‘ کی تفسیر سے 70 اُونٹ بھر دوں۔ ‘‘ (یعنی اُس کی تفسیر لکھتے ہوئے اِتنے رِجسٹر (Registers) تیار ہوجائیں کہ70 اونٹوں کا بوجھ بن جائے) (قوتُ القلوب ج۱ص۹۲)
دو فرامینِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:{۱} ’’ اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَایعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہیں۔ ‘‘ (مُستَدرَک ج۴ص۹۶ حدیث ۴۶۹۳)