مُحَقِّق عَلَی الِاْطلاق، خاتِمُ المُحَدِّثین، حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے ’’ اَ خبارُ الاخْیار ‘‘ میں سرکارِ غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْاَکْرَم کے جو مبارَک اَقوال نَقْل فرمائے ہیں اُن میں سے تین مُلاحَظہ ہوں :{۱}میرے مُرید کا پردۂ عِفّت اگر مشرِق میں کُھل رہا ہو اورمیں چاہے مغرِب میں ہُوا جب بھی اُس کی پردہ پوشی کروں گا{۲}میں تا قِیامت اپنے مُریدوں کی دَسْتْ گِیری (یعنی امداد) کرتا رہوں گا اگر چِہ وہ سُواری سے گرے {۳} جو کسی سختی (مشکل) میں مجھے پکارے ( یعنی المدد یاغوث کہے) اُسے کُشادَگی حاصل ہو (یعنی مشکل حل ہو) ۔ (اخبارُالاخیار ص ۱۹)
قسم ہے کہ مشکل کو مشکل نہ پایا
کہاہم نے جس وقت ’’ یا غوثِ اعظم ‘‘ (ذوقِ نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سُوال (12) :شیخ عبدالقادر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی توعربی و فارسی بولتے تھے، مختلف بولیوں مثلاً اردو ، انگریزی، پشتو، پنجابی وغیرہ زَبان میں مدد کیلئے پکارنے پروہ کس طرح مدد فرمائیں گے؟
جواب: کوئی عورت اپنے شوہر کو چاہے کسی بھی زبان میں ستائے اُس کی زوجہ بننے والی جنَّتی حُور سمجھ لیتی ہے چُنانچہ
جنَّتی حُور کا دوسری زَبانیں سمجھ لینا
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: جب کوئی عورت اپنے شوہر کو دُنیا میں ستاتی ہے تو اس کی بیوی سے جنّتی حُور کہتی ہے: لَا تُوْذِیْہِ قَاتَلَکِ اللہُ فَاِنَّمَا ہُوَ عِنْدَکِ دَخِیْلٌ یُوْشِکُ اَنْ یُّفَارِقَکِ اِلَیْنَا۔ یعنی اللہ تجھے غارت کرے اسے تکلیف نہ پہنچا وہ تیرے پاس چند دن کا مہمان ہے عنقریب وہ تجھ سے جُداہوکر ہمارے پاس آنے والا ہے۔ (ترمذی ج۲ص۳۹۲ حدیث ۱۱۷۷) جب حور دوسری زَبان سمجھ سکتی ہے تو اولیاء کے سردارسرکارِ غوث اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْاَکْرَم وَفات کے بعد دوسری زَبانیں کیوں نہیں سمجھ سکتے!
مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اِ س حدیثِ پاک کے تحت مراٰۃ جلد 5صفحہ98پر فرماتے ہیں :اس حدیث سے چند مسئلے معلوم ہوئے ، ایک یہ کہ حُوریں نورانی ہونے کی وجہ سے جنّت میں زمین کے واقعات دیکھتی ہیں ، دیکھویہ لڑائی ہو رہی ہے کسی گھر کی بند کو ٹھری میں اور حور دیکھ رہی ہے ! یہاں (صاحب) مِرقات (حضرتِ سیِّدُنا مُلّاعلی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی) نے فرمایا کہ مَلاءِ اعلیٰ دنیا والوں کے ایک ایک عمل پر خبر دارہیں۔دوسرے یہ کہ حوروں کو لوگوں کے انجام کی خبر ہے کہ فُلاں مومِن مُتقی مریگا۔ (جبھی تو کہتی ہے: عنقریب تجھے چھوڑ کرہمارے پاس آئیگا) تیسرے یہ کہ حوروں کو لوگوں کے مقام کی خبر کہ بعد قیامت یہ جنّت کے فُلاں درَجے میں رہے گا۔چوتھے یہ کہ حوریں آج بھی اپنے خاوَند انسانوں کو جانتی پہنچانتی ہیں ، پانچواں یہ کہ آج بھی حُوروں کو ہمارے دُکھ سے دُکھ پہنچتا ہے ، ہمارے مخالِف سے ناراض ہوتی ہیں ۔ جب حوروں کے علم کا یہ حال ہے تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو تمام خَلق سے بڑے عالم ہیں ان کے علم کا کیا پوچھنا ! مفتی صاحب آگے چل کر مزید فرماتے ہیں : چھٹے یہ کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جنّت کے حالات (اور) حوروں کے کلام سے خبردار ہیں مگر یہ کلام وہ ہی حُور کرتی ہے جس کازَوج (یعنی شوہر) اس گھر میں ہو۔ یعنی ترمذی میں یہ حدیث غریب ہے ابن ماجہ کی روایت میں نہیں مگر یہ غَرابَت مُضِر نہیں ، کیونکہ اِس حدیث کی تائید قراٰنِ کریم سے ہو رہی ہے۔ ربّ تعالیٰ فِرِشتوں کے