حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ، ایک شب حضرتِ سیِّدُنااِمام حسن مُجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور ایک شب حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللہ بن جعفَر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس اِفطار فرماتے اور تین لقموں سے زیادہ تناوُل نہ فرماتے اور (کم کھانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے) اِرشاد فرماتے: مجھے یہ اچّھا معلوم ہوتاہے کہ ’’ اللہ تَعَالٰی سے ملتے وقت میرا پیٹ خالی ہو۔ ‘‘ شہادت کی رات تو یہ حالت رہی کہ باربار مکان سے باہَر تشریف لاتے اور آسمان کی طرف دیکھ کر فرماتے: بخدا عَزَّوَجَلَّ! مجھے کوئی خبر جھوٹی نہیں دی گئی، یہ وُہی رات ہے جس کا وَعدَہ کیا گیا ہے۔ (گویا آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو اپنی شہادت کا پہلے ہی سے علم تھا) (سوانِحِ کربلا ص۷۶، ۷۷ملخصاً)
شبِ جُمُعہ17 (یا19) رَمَضانُ المبارَک 40ھ کوحَسَنَیْنِ کرِیْمَیْن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے والد بُزُرگوار، حیدرِکرَّار، صاحب ِذُوالفِقار اَمیرُالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسَحَر (یعنی صبح) کے وقت بیدار ہوئے، مؤذِّن نے آکر آواز دی اور کہا:اَلصَّلٰوۃ اَلصَّلٰوۃ! چُنانچِہ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نَماز پڑھنے کے لئے گھر سے چلے، راستے میں لوگوں کو نَماز کے لئے صدائیں دیتے اور جگاتے ہوئے مسجد کی طرف تشریف لے جا رہے تھے کہ اچانک اِبْنِ مُلْجَم خارِجی بدبَخْت نے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم پر تلوار کا ایک ایسا ظالمانہ وار کیاکہ جس کی شدّت سے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی پیشانی کنپٹی تک کٹ گئی اور تلوار دماغ پر جا کر ٹھہری۔ اتنے میں چاروں طرف سے لوگ دوڑ کر آئے اور اُس خارِجی بدبَخت کو پکڑ لیا۔ اِس اَلَم ناک واقِعہ کے 2دن بعد آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم جامِ شہادت نوش فرما گئے۔ (تاریخ الخلفاء ص۱۳۹) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صدْقے ہماری بے حساب مغفِرَت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اِبْنِ مُلْجَم کی لاش کے ٹکڑے نَذْرِ آتش کر دیئے گئے
حضرتِ سیِّدُنااِمام حسن، سیِّدُنا امام حسین اورسیِّدُناعبدُاللہبن جعفَر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو غُسْل دیا، حضرتِ سیِّدُنااِمام حسن مُجتبَیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اوردارُالاِْمارت کوفہ میں رات کے وقت دَفْن کیا۔ لوگوں نے اِبْنِ مُلْجَم بَدکِردار وبَداَطوار کے جسْم کے ٹکڑے کرکے ایک ٹوکرے میں رکھ کر آگ لگا دی اور وہ جل کر خاکِستر ہو گیا۔ (ایضاً)
بعدِ موت قاتِلِ علی کی سزا کی لرزہ خیز حکایت
دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃ المدینہ کی مَطْبُوعہ کتاب ’’ فیضانِ سنّت ‘‘ جلد دُوُم کے 505 صفْحات پر مشتمل باب ’’ غیبت کی تباہ کاریاں ‘‘ صَفْحَہ199 پر ہے: عِصْمَہ عَبَّادَانِیکہتے ہیں : میں کسی جنگل میں گھوم رہا تھا کہ میں نے ایک گِرجا دیکھا، گِرجا میں ایک راہِب کی خانقاہ تھی اُس کے اندر موجود راہِب سے میں نے کہا کہ تم نے اِس (ویران) مقام پرجو سب سے عجیب وغریب چیز دیکھی ہو وہ مجھے بتاؤ! تواُ س نے بتایا: میں نے ایک روز یہاں شُتَر مُرغ جیسا ایک دیو ہیکل سفید پرندہ دیکھا، اُس نے اُس پتّھر پر بیٹھ کرقَے کی، اُس میں سے ایک انسانی سر نکل پڑا ، وہ برابر قے کر تا رہا اور انسانی اَعضا ء نکلتے رہے اور بجلی کی سی سُرعَت ( یعنی پُھرتی) کے ساتھ ایک دوسرے سے جُڑتے رہے یہاں تک کہ وہ مکمَّل آدَمی بن گیا! اُس آدَمی نے جوں ہی اُٹھنے کی کوشش کی اُسدیو ہیکل پرندے نے اُس کے ٹھونگ ماری اور اُس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، پھر نگل گیا۔ کئی روز تک میں یہ خوفناک منظر دیکھتا رہا، میرا یقین خدا عَزَّوَجَلَّ کی قدرت پر بڑھ گیا کہ واقِعی اللہ عَزَّوَجَلَّ مار کر