مذکورہ دلائل سے جب یہ ثابِت ہو گیا کہ انبِیاء واَولیاء عَلَیْہِمُ السَّلام و رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی اپنے مَزارات میں حیات ہیں ، تو جس دلیل کے ساتھ اُن سے اُن کی حیاتِ ظاہِری میں مدد طلب کرنا جائز ہے بِالکل اُسی دلیل کے باعث دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد بھی جائز ودُرُست ہے۔چنانچِہمُحَقِّق عَلَی الِاْطلاق ، خاتِمُ المُحَدِّثِین ، حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلوی حنفی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی لکھتے ہیں کہ حضرتِسیِّدُنا احمد بن مَرزُوقعَلَیْہ رَحمَۃُ اللہِ القُدّوس فرماتے ہیں: ایک دن شیخ ابو العبّاس حَضْرَمِی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامی نے مجھ سے دریافْتْ کیا کہ ’’ زندہ کی اِمداد زیادہ قَوی ہے یا میِّت کی؟ ‘‘ میں نے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زندہ کی امداد زیادہ قَوی (یعنی مضبوط) ہے اور میں کہتا ہوں کہ میِّت کی امداد قَوی تَر (یعنی زیادہ مضبوط) ہے۔شیخ نے فرمایا: ’’ ہاں ، یہ بات دُرُست ہے کیونکہ وفات یافتہ بُزُرگ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اس کے ہاں ہوتے ہیں ۔ ‘‘ (اشعۃ اللمعات ج۱ ص۷۶۲)
غیرُ اللہ سے مدد مانگنے کے متعلِّق شافِعی مفتی کا فتویٰ
شیخُ الاسلام حضرتِ سیِّدُناشَہاب رَملی انصاری شافِعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی ( مُتَوَفّٰی ۱۰۰۴ھ ) سے فتویٰ طلب کیاگیا : (یا سیّدی یہ ارشاد فرمایئے:) ’’ عام لوگ جو سختیوں (یعنی مصیبتوں ) کے وَقْت مَثَلاً ’’ یا شیخ فُلاں ! ‘‘ کہہ کرپکارتے ہیں اور انبیاء کرام واولیائے عِظام عَلَیْہِمُ السَّلام و رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام سے فریاد کرتے ہیں ، اس کا شَرْع شریف میں کیا حکم ہے؟ ‘‘ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فتویٰ دیا : ’’ ا نبیاء ومُرسَلین واولیاء وعُلَماء وصالحین عَلَیْہِمُ السَّلام و رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن سے ان کے وِصال (یعنی انتِقال) شریف کے بعد بھی اِستِعانَت واِستِمداد (یعنی مدد طلب کرنا ) جائز ہے۔ ‘‘ (فتاوی رملی ج۴ ص۷۳۳)
مرحوم نوجوان نے مسکرا کر کہا کہ..........
امام عارِف بِاللہ اُستاذ ابو القاسِم قُشَیری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں کہ مشہور وَلِیُّ اللہ حضرتِ ابو سعیدخَرَّازرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں نے مکّۂ معظمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں ایک نوجوان کو ’’ بابِ بنی شَیْبَہ ‘‘ پر فوت شدہ پڑا پایا ۔اچانک وہ مجھے دیکھ کر مسکرایا اور کہا:یَااَبَا سَعِیْدٍ! اَمَا عَلِمْتَ اَنَّ الْاَحِبَّاءَ اَحْیَاءٌ وَّاِنْ مَّاتُوْا وَاِنَّمَا یُنْقَلُوْنَ مِنْ دَارٍ اِلٰی دَارٍ۔یعنی اے ابو سعید! کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب (پیارے) بندے زندہ ہیں ، اگرچِہ وہ فوت ہو جائیں ، مُعامَلہ تو صرف اتنا ہے کہ وہ تو ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرفمُنْتَقِل (مُنْ۔تَ۔قِل) کئے جاتے ہیں ۔ (رسالۂ قُشَیریہ ص۳۴۱)
خدا عَزَّوَجَلَّ کا ہرپیارا زندہ ہے
سُبْحٰنَ اللہ! وَلِیُّ اللہ کی بعدِ وفات والی حیات بھی کیا خوب ہے! کہ اولیا کی شان بھی بیان کر دی اور دیکھنے والے کا نام بھی بتا دیا! اِسی سے ملتی جلتی ایک اور حِکایت مُلاحَظہ ہو چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا ابو علی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں کہ میں نے ایک فقیر کو قبر میں اُتارا ، جب کَفَن کھولا اور اُس کا سر خاک پر رکھا تاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی غُربَت پر رَحم فرمائے، تو اُس نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور مجھ سے فرمایا: ’’ اے ابو علی! آپ مجھے اُس کے سامنے ذلیل کرتے ہیں جو کہ میرے ناز اُٹھاتاہے! ‘‘ میں نے سنبھل کر کہا:یاسیِّدی (یعنی اے میرے سردار! ) کیا موت کے بعد بھی زندگی ہے؟ اُس نے جواب دیا: ’’ بَلٰی اَنَا حَیٌّ وَّ کُلُّ مُحِبٍّ لِلّٰہِ حَیٌّ۔یعنی ہاں کیو ں نہیں ، میں زندہ ہوں اور خدا کا ہر محبوب (یعنی پیارابندہ) زندہ ہے ۔ ‘‘ (شرحُ الصّدور ص۲۰۸)
اولیاء کس نے کہا کہ مرگئے