جاتی تووہ میرے نزدیک سُرخ اُونٹوں سے بھی محبوب تر ہوتی۔صَحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے پوچھا: وہ 3 فضائل کون سے ہیں ؟ فرمایا: {1} اللہ کے پیارے حبیب ، حبیبِ لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی صاحِبزادی حضرتِ فاطمۃُالزَّہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو اِن کے نِکاح میں دیا {2}اِن کی رِہائش سرکارِ اَبَدقرار، شفیعِ روزشُمار ، دوعالَم کے مالِک و مُختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں تھی اور اِن کے لئے مسجد میں وہ کچھ حلال تھا جو اِنہیں کا حصّہ ہے۔اور {3} غزوۂ خیبر میں اِن کوپرچمِ اسلام عطا فرمایا گیا ۔ (مُستَدرَک ج۴ ص۹۴ حدیث۴۶۸۹)
بہرِ تسلیمِ علی میداں میں
سر جُھکے رہتے ہیں تلواروں کے (حدائقِ بخشش شریف)
سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ! حضرت ِ سیِّدُنا مولیٰ مُشکل کُشا، علیُّ المُرتَضٰی، شیرِخداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی شان کے بھی کیا کہنے کہ امیرُ الْمُؤْمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عُمَر فارُوقِ اَعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی اُن کی قسمت پر رَشک فرماتے ہیں ، لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرتِ سیِّدُناعلیُّ المُرتَضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فضائل میں اُن سے بھی بڑھ گئے، فضائل و مراتِب کے اِعتِبار سے مسلکِ حق اَہلسنّت وجماعت کے نزدیک جو ترتیب ہے اس کابیان کرتے ہوئے صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :تمام صَحابۂ کرام اعلیٰ و ادنیٰ (اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں ) سب جنَّتی ہیں ، بعدِ انبیا ومُرسَلین، تمام مخلوقاتِ الٰہی اِنْس و جِنّ و مَلک (یعنی انسانوں ، جنّوں اور فِرشتوں ) سے افضل صدِّیقِ اکبر ہیں ، پھر عمر فاروقِ اعظم، پھرعثمانِ غنی، پھر مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم، جو شخص مولیٰ علیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو (حضرتِ سیِّدُنا) صِدّیق یا فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے افضل بتائے، گمراہ بدمذہب ہے۔خُلَفائے اَرْبَعہ راشِدین کے بعدبَقِیّہ عَشَرَۂ مُبشَّرہ و حَضْراتِ حَسَنَین و اَصْحابِ بَدْر و اصحابِ بَیعۃُ الرِّضوان (عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان) کے لیے افضلیت ہے اور یہ سب قَطْعی جنَّتی ہیں۔افضل کے یہ معنی ہیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے یہاں زیادہ عزَّت و مَنزِلت والا ہو، اِسی کو کثرتِ ثواب سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ (مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج۱ص۲۴۱ تا۲۵۴ )
مصطَفٰے کے سب صَحابہ جنّتی ہیں لا جَرَم
سب سے راضی حق تعالیٰ سب پہ ہے اُس کا کرم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
عَشَرَۂ مُبَشَّرَہ کے اسمائے گرامی
حضرتِ مولیٰ علی مشکلکشا شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم عَشَرَۂ مُبَشَّرَہمیں سے بھی ہیں ، عَشَرَۂ مُبَشَّرَہ اُن دس صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو کہا جاتا ہے جنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حبیب ، حبیبِ لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زَبانِ حقِّ تَرجُمان سے خُصُوصی طور پر جنَّتی ہونے کی بِشارت دی گئی ہے۔چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا عبدُالرحمن بن عَوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ مدینہ، قرارِ قَلْب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ ابوبکر، عمر، عثمان ، علی، طلحہ، زُبیر، عبدالرحمن بن عَوف، سَعد بن ابی وقَّاص، سعیدبن زیدا ور ابو عُبَیدہ بن جَرَّاح جنَّتی ہیں ۔ ‘‘ (رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن) (تِرْمِذِی ج۵ ص۴۱۶ حدیث ۳۷۶۸ )
وہ دَسوں جن کو جنَّت کا مُژدہ[1]؎ ملا