لگتی ۔ اِس خواب کے بعدمیں نے اپنے اہل و عِیال کو توبہ کی تلقین کی ان میں سے جنہوں نے توبہ کر کے مسلکِ اہلِ سنّت و جماعت قَبول کیا میں نے اُن سے مُراسِم (یعنی تعلُّقا ت) قائم رکھے، باقیوں سے توڑ ڈالے۔ (مُلَخَّص از مِصباحُ الظّلام ص۷۴)
جب دامنِ حضرت سے ہم ہو گئے وابَستہ
دنیا کے سبھی رشتے بیکار نظر آئے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس روایت سے پتا چلتا ہے کہ سچے مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ وہ تمام صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی عظَمت وشان کا دل سے مُعتَرِف ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص بعض صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے مَحَبّت اور بعض سے بُغض رکھتاہے تووہ سخت غلطی پر ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں تمام صَحابۂ کِرام واہلِ بیتِ عِظام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے سچی مَحَبّت وعقیدت عنایت فرمائے۔اس پر استِقامت بخشے اوراسی اُلفت و اِرادَت کی حالت میں زیرِ گنبدِ خضرا جلوۂ محبوب میں شہادت ، جنَّتُ البقیع میں مدفن اورجنّت الفِردوس میں اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور چار یار کا جوار ( یعنی پڑوس ) عنایت فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
صَحابہ کا گدا ہوں اور اہلِ بیت کا خادم
یہ سب ہے آپ ہی کی تو عنایت یا رسولَ اللہ!
میں ہوں سُنّی، رہوں سُنّی، مروں سُنّی مدینے میں
بقیعِ پاک میں بن جائے تُربت یا رسولَ اللہ! (وسائل بخشش ص۱۸۴، ۱۸۵)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃ المدینہ کی مَطْبُوعہ192 صفْحات پر مُشْتَمِل کتاب ’’ سَوانِحِ کربلا ‘‘ صَفْحَہ 74 پرصدرُالْاَ فاضِل حضرت علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی حدیثِ مُبارَکہ نقْل فرماتے ہیں : حضرتِ ابنِ مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے : حُضُور سیِّدِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِرشاد فرمایا: ’’ علیُّ المُرتَضٰی (کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) کو دیکھنا عبادت ہے۔ ‘‘ (مُستَدرَک ج۴ص۱۱۸حدیث۴۷۳۷)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! امیرُ الْمُؤْمِنِین حضرتِ سیِّدُنا مولٰی مُشکل کُشا، علیُّ المُرتَضٰی، شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی عظَمت و شان کا ایک روشن پہلویہ بھی ہے کہ اللہ غَفور عَزَّ وَجَلَّ کی عطا سے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کااہلِ قُبُور سے بھی گفتگو کرنا ثابت ہے۔چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا امام عبدُ الرَّحمن جلالُ الدِّین سُیُوطِی شافِعیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی ’’ شَرْحُ الصُّدُور ‘‘ میں نَقْل کرتے ہیں ، حضر تِ سَیِّدُنا سعید بن مُسیَّب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرما تے ہیں :ہم امیرُ الْمُؤمِنِین حضرتِ علیُّ المُرتَضٰی شیرِخدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے ہمراہ قبرِستان سے گزرے، آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اِرشاد فرمایا: ’’ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَہْلَ الْقُبُوْرِ وَرَحْمَۃُ اللہ یعنی اے قبر والو! تم پر سلامَتی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت ہو۔ ‘‘ اور فرمایا: اے قَبْر والو! تم اپنی خبر بتاؤ گے یا ہم تمہیں بتائیں ؟ سَیِّدُناسعید بن مُسیَّب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ