کرامات شیر خدا

(۲)  تفسیرِ رُوحُ الْمَعانی جلد  28 صفحہ481 (۳) تفسیرِبیضاوی جلد  5صفحہ 356 (۴) تفسیرابی سُعُود جلد 5 صفحہ 738 ۔

یاخدا بہرِ جنابِ مصطفٰے امداد کن

یارسول اللہ از بہرِ خدا امداد کن (حدائق بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 ’’  اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ  ‘‘  کی بہترین تشریح

سُوال (4) : سُوْرَۃُ  الْفَاتِحَۃمیں  ہے: اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُیعنیہم تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ‘‘   لہٰذا کسی اور سے مدد مانگناشرک ہُوا؟

جواب:مذکورہ آیتِ کریمہ میں  مدد سے مُراد حقیقی مدد ہے یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کوحقیقی کارساز سمجھ کرعرض کیا جارہاہے:اے ربِّ کریم!  ’’  ہم تجھی سے مدد مانگتے ہیں  ‘‘  رہا بندوں  سے مدد مانگنا تو وہ مَحْض واسِطۂ فیضِ الٰہی سمجھ کر ہے۔ جیساکہ پارہ12 سُوْرَۂ یُوْسُف آیت نمبر40 میں  ہے : اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِؕ-  (ترجَمۂ کنزالایمان:حکم نہیں  مگراللہکا)  یاپارہ 3 سُوْرَۃُ الْبَقَرَہ آیت نمبر255 میں  فرمایا: لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-  (ترجَمۂ کنزالایمان: اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں  میں  ہے اور جو کچھ زمین میں )  پھر ہم حکام کو حکم  (حَ۔کَمْ یعنی فیصلہ کرنے والا) بھی مانتے ہیں  اور اپنی چیزوں  پرملکیت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں  یعنی آیت سے مرادہے حقیقی حَکَم (یعنی فیصلہ کرنے والا)  اور حقیقی مِلکیّت ،  مگر بندوں  کے لئے بہ عطائے الٰہی۔ (جاء الحق ص۲۱۵) کئی مقامات پر قراٰنِ کریم نے غیرُ اللہ کو مدد گار قرار دیاہے،  اِس ضِمْن میں  4آیاتِ مبارَکہ  مُلاحظہ ہوں :

 (۱) وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-  (پ۱، البقرہ: ۴۵)

ترجَمۂ کنزالایمان:اور صبرا ورنَماز سے مدد چاہو۔

     کیا صَبْر خدا ہے؟  جس سے اِستِعانت  (یعنی مدد مانگنے ) کا حکم ہوا ہے۔ کیا نَماز خدا ہے؟  جس سے اِستِعانت  (یعنی طلبِ امداد)  کو ارشاد کیا ہے۔ دوسری آیت میں  فرماتاہے:

 (۲) وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-  (پ۶، المائدہ:۲)

ترجَمۂ کنزالایمان:اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔

        اگرغیرِ خدا سے مددلینی مُطْلَقاً مُحال (یعنی ہر صورت میں  ناممکن ) ہے تو اس (آیتِ مبارَکہ میں  ارشاد کردہ) حُکمِ الٰہی کا حاصل کیا؟

 (۳) اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ (۵۵)   (پ۶، المائدہ:۵۵)

ترجَمۂ کنزالایمان: تمہارے دوست نہیں  مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں  اور زکوٰۃ دیتے ہیں  اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔

 (۴) وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-  (پ۱۰، التوبہ:۷۱)

ترجمۂ کنزالایمان:مسلمان مرد اور مسلمان عورَتیں  ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔

          اِس آیت مبارَکہ کی تفسیر یہ کی گئی ہے:  ’’ اورباہم دینیمَحَبَّت وموالات رکھتے ہیں  اور ایک دوسرے کے مُعِین و مدد گار ہیں۔ ‘‘  ( خزائن العرفان ، پ۱۰،  التوبہ ۷۱) صحیح اِسلامی عقیدے کے مطابِق اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتے ہوئے انبیاء کرام اور اولیاءے کرام سے مددطلب کرے کہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اجازت کے بِغیربذاتِ خودنفع و نقصان کے مالک ہیں  تویہ یقیناًشرک ہے جبکہ اِس کے برعکس اگر کوئی شخص حقیقی مددگاراورنَفْع و نقصان کاحقیقی مالِک اللہ تَعَالٰی  کو مان کر کسی کومَجازًا  (یعنی غیر حقیقی طورپر) اورمحض عطائے الٰہی سے مددگارسمجھتے ہوئے مددچاہے

Index