مُتَعلِّق فرماتا ہے: یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ (۱۲) (الانفطار:۱۲)
ترجمۂ کنز الایمان:کہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرو
اورابلیس و ذُرِّیَّتِ ابلیس کے مُتَعلِّق فرماتا ہے:
اِنَّهٗ یَرٰىكُمْ هُوَ وَ قَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَهُمْؕ-(پ۸، الاعراف:۲۷)
ترجمۂ کنز الایمان:بے شک وہ اور اس کا کنبہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں کہ تم انہیں نہیں دیکھتے۔
جب حدیث کی تائید قراٰنِ مجید سے ہو جائے تو ’’ ضعیف ‘‘ بھی ’’ قوی ‘‘ ہو جاتی ہے۔ (مراٰۃ ج۵ ص۹۸) بہر کیف عالمِ آخِرت کے مُعاملات وَہْبی (یعنی اللہ تَعَالٰی کی طرف سے عطا کردہ) اور خلافِ عادت ہیں انہیں اس دنیا کے مُعاملات پر قِیاس نہیں کیاجاسکتا۔ یعنی جو اُمور دنیا میں کَسْبی (کوشش سے حاصل کئے جاتے ) ہیں وہ وہاں محض وَہْبی ہوجاتے ہیں۔
حضرت عَلَّامہعلی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی فرماتے ہیں :لِاَنَّ اُمُوْرَ الْاٰخِرَۃِ مَبْنِیَۃٌ عَلٰی خَرْقِ الْعَادَۃِ ۔ یعنی کیونکہ آخرت کے مُعاملات خلافِ عادت پر مبنی ہیں ۔ (مِرقاۃ ج۱ ص۳۵۴ تَحتَ الحدیث۱۳۱)
راستہ پُرخار، منزِل دُور، بَن سُنسان ہے
المدد اے رہنما! یاغوثِ اعظم دَسْتْ گِیر (وسائل بخشش ص۵۲۲)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
جب اللہ مدد کر سکتا ہے تو دوسرے سے مدد کیوں مانگیں ؟
سُوال (13) :اُس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جویوں ذہن بنا کر صِرْفاللہ عَزَّوَجَلَّ ہی سے مدد مانگا کرے کہ جباللہ عَزَّوَجَلَّ مدد پر قادِر ہے تو پھر احتیاط اِسی میں ہے کہ صِرْف اُسی سے مدد مانگی جائے ۔
جواب:بے شکاللہ عَزَّوَجَلَّ مدد پر قادِر ہے اور کارسازِ حقیقی بھی وُہی ہے، اگر کوئی صرْفاللہ عَزَّوَجَلَّ ہی سے مددمانگاکرے تو اُس پر کوئی اِلزام نہیں ، تاہم ’’ اِحتیاطاً دوسروں سے مدد نہ مانگنا ‘‘ شیطان کا بَہُت بڑا اور بُرا وار ہے کہ اُس نے اِس شخص کا ذِہْنمُنْتَشِر کر رکھا ہے جبھی تو ’’ احتیاط ‘‘ کے نام پراِس ’’ وسوسے ‘‘ کے مطابِق عمل کر رہا ہے کہ ہو سکتا ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کسی اور سے مدد مانگنا کوئی غَلَط کام ہو! اگر یہ وَسوَسے کا شکار نہ ہوتاتو اسے ’’ احتیاط ‘‘ کا نا م دیتا ہی کیوں ! اُسے اپنے وَسوَسوں کا علاج کرنا ضَروری ہے ، کیوں کہ اِس وَسوَسے کی پَیروی میں بَہُت ساری قُراٰنی آیتوں اورمبارَک حدیثوں کی مخالَفَت پائی جا رہی ہے، اللہ ورسول عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دوسروں سے مدد مانگنے کی اجازت عنایت فرما رہے ہیں اوریہ ہے کہ اپنی ’’ وسوَسہ مار کہ اِحتیاط ‘‘ پراَڑا ہوا ہے! ایسے شخص کو قراٰنِ کریم کی اِ ن 6آیاتِ مبارَکہ پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے جن میں غیرِ خدا سے مدد لینے کا صاف صاف الفاظ میں تذکرہ موجود ہے۔ چُنانچِہ
{۱}نیکی میں ایک دوسرے کی مددکرو:
وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ۶، المائدہ :۲)
ترجمۂ کنز الایمان:اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادَتی پر باہَم مدد نہ دو۔
{۲} صَبْر اور نَماز سے مدد چاہو: وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-ترجَمۂ کنز الایمان : اور صَبر اورنَماز سے مدد چاہو ۔ (پ۱، البقرۃ:۴۵)